Maktaba Wahhabi

194 - 198
الصَّمَدِیَّۃِ، فَضَلُّوا وَخَسِرُوا، فَإِنَّ إِطْرَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤَدِّي إِلٰی إِسَائَۃِ الْـاَدَبِ عَلَی الرَّبِ، نَسْأَلُ اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یَّعْصِمَنَا بِالتَّقْوٰی، وَأَنْ یَّحْفَظَ عَلَیْنَا حُبَّنَا لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا یَرْضٰی ۔ ’’تعظیم میں حد سے بڑھنا ممنوع ہے، جبکہ ادب اور توقیر واجب ہے۔ جب اطرا اور توقیر مشتبہ ہوجائیں تو عالم کو توقف کرنا چاہیے اور رُک جانا چاہیے،جب تک کسی بڑے عالم سے دریافت نہ کرلے، تاکہ حق واضح ہوجائے،پھر وہ اس کے بارے میں بات کرے، ورنہ خاموشی بہترہے۔اسے وہی توقیر کافی ہے،جسے بے شمار احادیث میں وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے۔اسی طرح غلوسے اجتناب کرے، جس کا ارتکاب نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کیا۔وہ ان کی نبوت پر راضی نہیں ہوئے،بل کہ انہیں الہٰ اور اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا اور اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت وصمدیت میں نقب لگایا۔ یوں وہ گمراہ اورناکام ہوگئے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں حد سے بڑھنا اللہ کی گستاخی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تقویٰ کی بدولت ہمیں بچالے اورجیسے اسے پسند ہے، ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت راسخ فرمادے ۔‘‘ (میزان الاعتدال : 2/650) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سن کر انگوٹھے چومنا بھی غلو ہے، اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں ۔ اگر یہ نیکی کا کام ہوتا یا شریعت کی رُو سے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر ہوتی، تو صحابہ کرام اورائمہ عظام اس کو اپناتے۔ وہ سب سے زیادہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے تھے۔ کسی ثقہ امام سے اس کا
Flag Counter