پر استوار کی گئی تھی، تو مسجد نبوی اس نام کی زیادہ حق دار تھی۔اہل بیت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر : 6/415، 416، بتحقیق سلامۃ) احادیث کی روشنی میں : ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا: یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ، مَنْ یَعْذِرُنِي مِنْ رَّجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي أَذَاہُ فِي أَہْلِ بَیْتِي، فَوَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أَہْلِي إِلَّا خَیْرًا ۔ ’’مسلمانو! کون اس شخص سے بدلہ لے گا، جس نے میرے اہل بیت کے حوالے سے مجھے تکلیف دی ہے؟ اللہ کی قسم! میری بیوی سراپا خیر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري : 4850، صحیح مسلم : 2770) ٭ حصین بن سبرہ رحمہ اللہ نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا: مَنْ أَہْلُ بَیْتِہٖ یَا زَیْدُ؟ أَلَیْسَ نِسَاؤُہٗ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہٖ؟ ’’زید! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اہل بیت میں شامل نہیں ؟‘‘ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نِسَاؤُہٗ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہٖ ۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اہل بیت میں شامل ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم : 2408) اُم سلمہ رضی اللہ عنہا چادر والی حدیث میں بیان کرتی ہیں : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَلَسْتُ مِنْ أَہْلِکَ؟ قَالَ : ’بَلٰی، فَادْخُلِي |