دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے، اس کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں گی۔‘‘ (المَقاصِد الحَسَنۃ للسّخاوي، ص 384) بے سند، بے ثبوت جھوٹی اور باطل روایت ہے۔ حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : بِسَنَدٍ فِیْہِ مَجَاہِیْلُ مَعَ انْقِطَاعِہٖ ۔ ’’سند میں مجہول راوی ہیں ، منقطع بھی ہے۔‘‘ مجہول راوی ہیں یا نہیں ، اس کا تعین تب کیا جاسکتا ہے، جب سند موجود ہو، اس کی تو سند ہی موجود نہیں ۔ اب علما کی تصریحات ملاحظہ ہوں : حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لَا یَصِحُّ فِي الْمَرْفُوْعِ مِنْ کُلِّ ہٰذَا شَيْئٌ ۔ ’’اس معنی کی مرفوع احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ۔‘‘ (المَقاصِد الحَسَنۃ للسّخاوي، ص 385) علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : کُلُّ مَا یُرْوٰی فِي ہٰذَا؛ فَلَا یَصِحُّ رَفْعُہُ الْبَتَّۃَ ۔ ’’اس بارے میں کوئی بھی مرفوع روایت قطعاً ثابت نہیں ہے ۔‘‘ (الموضوعات الکبرٰی، ص 210) علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں : لَمْ یَصِحَّ فِي الْمَرْفُوعِ مِنْ کُلِّ ہٰذَا شَيْئٌ ۔ ’’ان میں سے کوئی مرفوع روایت ثابت نہیں ۔‘‘ (رَدّ المُحتار : 1/293) |