تنبیہ : 1. علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : إِذَا ثَبَتَ رَفْعُہٗ عَلَی الصَّدِّیقِ؛ فَیَکْفِي الْعَمَلُ بِہٖ ۔ ’’جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، تو عمل کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ (الموضوعات الکبرٰی، ص 210) پہلے اس کی سند پیش کی جائے،پھرراویوں کی توثیق ۔۔۔ بے سروپاروایات کا کیا اعتبار؟ 2. مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب’’انجیل برنباس‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’اس میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے روح القدس (نور مصطفوی) کے دیکھنے کی تمنا کی تو وہ نور ان کے انگوٹھے کے ناخنوں میں چمکا دیا گیا۔ انہوں نے فرط محبت سے ان ناخنوں کو چوما اور انگوٹھوں سے لگایا۔‘‘ (جاء الحق : 1/398) ہمیں قرآن وحدیث کی پیروی کا حکم ہے، محرف ومبدل کتابیں مسلمانوں پر حجت نہیں ۔ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، پھر بھی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے۔‘‘ (جاء الحق : 1/401) ہمارا مطالبہ سند کا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق فضائل اعمال سے نہیں ، بلکہ شرعی احکام سے ہے کہ اذان میں نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک سن کر انگوٹھے چومنے چاہئیں یا نہیں ، فضائل کی بات تو بعد میں ہے۔ |