اختلاط سماع نہیں کیا۔ احادیث اور محدثین کی صراحت سے ثابت ہو اکہ روح لوٹائے جانے اور جواب دینے کا تعلق صرف حجرئہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں کھڑے ہو کر سلام کہنے والے سے ہے، ہرجگہ سے درود و سلام پڑھنے والے سے نہیں ، تو اس حدیث سے حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر استدلال کیسے درست ہوا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر آج تک کوئی دور ایسا نہیں آیا کہ حجرئہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہر وقت سلام کہا جا رہا ہو۔ حدیث کے الفاظ عقیدۂ حیات النبی کے منافی ہیں ۔ علامہ ابن الہادی رحمہ اللہ (۷۴۴ھ)لکھتے ہیں : لَیْسَ ہٰذَا الْمَعْنَی الْمَذْکُوْرُ فِي الْحَدِیْثِ، وَلَا ہُوَ ظَاہِرُہٗ، بَلْ ہُوَ مُخَالِفٌ لِّظَاہِرِہٖ، فَإِنَّ قَوْلَہٗ : ’إِلَّا رَدَّ اللّٰہُ عَلَيَّ رُوْحِي‘ بَعْدَ قَوْلِہٖ : ’مَا مِنْ أَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَيَّ۔۔۔۔۔‘ یَقْتَضِي رَدَّ الرُّوْحِ بَعْدَ السَّلاَمِ، وَلَا یَقْتَضِي اسْتِمْرَارَہَا فِي الْجَسَدِ ۔ وَلْیُعْلَمْ أَنَّ رَدَّ الرُّوحِ (إِلَی الْبَدَنِ) وَعَوْدَہَا إِلَی الْجَسَدِ بَعْدَ الْمَوْتِ لَا یَقْتَضِي اسْتِمْرَارَہَا فِیْہِ، وَلَا یَسْتَلْزِمُ حَیَاۃً أُخْرٰی قَبْلَ یَوْمِ النُّشُورِ نَظِیرَ الْحَیَاۃِ الْمَعْہُودَۃِ، بَلْ إِعَادَۃُ الرُّوحِ إِلَی الْجَسَدِ فِي الْبَرْزَخِ إِعَادَۃٌ بَرْزَخِیَّۃٌ، لاَ تُزِیلُ عَنِ الْمَیِّتِ اسْمَ الْمَوْتِ، وَقَدْ ثَبَتَ فِي حَدِیثِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ الطَّوِیلِ الْمَشْہُورِ، فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ، فِي شَأْنِ الْمَیِّتِ وَحَالِہٖ، أَنَّ رُوحَہٗ تُعَادُ إِلٰی جَسَدِہٖ، مَعَ |