Maktaba Wahhabi

95 - 198
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ، السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَتَاہُ ۔ ’’اے اللہ کے رسول!آپ پر سلامتی ہو!اے ابو بکر!آپ پرسلامتی ہو اور ابا جان!آپ پر سلامتی ہو۔‘‘ (فضل الصّلاۃ علی النبيّ للقاضي إسماعیل، ص : 81، ح : 99؛ السّنن الکبرٰی للبیہقي : 5/245، وسندہٗ صحیحٌ) معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے اور سلام کا جواب دینے کا تعلق صرف اس شخص سے ہے جو قبر کے عین قریب جا کر سلام کہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (تفسیر ابن کثیر : 3/621)وغیرہ نے بھی اس حدیث کا تعلق اسی شخص سے قائم کیا ہے،جو قریب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتا ہے، دور سے سلام کہنے والوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ کااسے قبروں کی زیار ت کے باب میں نقل کرنا بھی بہت واضح ہے۔ فائدہ : سنن سعید بن منصور میں ہے کہ حسن بن حسین بن علی بن ابو طالب رحمہ اللہ نے ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرپرسلام کہتے دیکھا، تو کہا : مَا أَنْتُمْ وَمَنْ بِالْـأَنْدَلُسِ إِلَّا سَوَائٌ ۔ ’’قریب جا کر کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ اور اندلس والے سلام کہنے میں برابر ہیں ۔‘‘ (الفتاوی الکبرٰی لابن تیمیۃ : 2/431) سند ضعیف ہے، سہیل بن ابی صالح مختلط ہیں ، عبد العزیز بن محمد دراوردی نے قبل از
Flag Counter