2. اگر قبر کے قریب سے سننا ہی عقیدہ حیات النبی کی دلیل ہے تو پھر عقیدہ حیاۃ الاموات بنانا چاہیے، کیوں کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے تمام مسلمانوں ، بلکہ غیر مسلموں کو بھی قبر کے قریب کی کوئی آواز سنا دیتا ہے،سیّدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِہٖ، وَتُوُلِّيَ، وَذَہَبَ أَصْحَابُہٗ، حَتّٰی إِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ ۔ ’’جب انسان کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چلے جاتے ہیں ، تو وہ ان کے جوتوں کی آوازیں سن رہا ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري : 1338؛ صحیح مسلم : 2870) تو کیا حیات النبی کے عقیدہ کے ساتھ حیات المسلمین یا حیات بنی آدم کا عقیدہ بھی ثابت ہو جائے گا؟ غزوۂ بدر میں قتل ہونے والے کفار کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّہُمُ الْآنَ یَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ ۔ ’’یقینااب وہ میری باتیں سن رہے ہیں ۔‘‘ (صحیح البخاري : 3980؛ صحیح مسلم : 2870) حیات الکافرین کا عقیدہ درست ہو گا؟ اللہ جب چاہے مردوں کو سنا دے، چاہے وہ کافر ہی ہوں ،چناں چہ اگر تسلیم کر لیاجائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر سلام سنتے ہیں ، تو بھی یہ عقیدہ حیات النبی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ ٭٭٭٭٭ |