جائے، لہٰذا اگر ’’طبرانی اوسط ‘‘والی سند کو اسکندرانی کی وجہ سے ’’ضعیف ‘‘خیال کیاجائے، تو بھی صرف شبہ انقطاع کو معتبر نہیں سمجھاجائے گا۔ ہمارے علم کے مطابق ’’کثیر الارسال‘‘ راوی کی ’’عن‘‘ والی روایت کو متقدمین میں سے حافظ ابن سعد رحمہ اللہ (الطبقات:6 /693)کے علاوہ کسی نے بھی شبہ انقطاع کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ قرار نہیں دیا۔ امام موصوف کی بات کو بھی اس صورت پر محمول کیا جا سکتا ہے کہ ’’کثیر الارسال‘‘ راوی کسی ایسے صحابی سے ’’عن‘‘ کے ساتھ روایت کر رہا ہو، جس سے اس کا سماع کہیں بھی ثابت نہ ہو، تو اس کی روایت ان کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے۔ ورنہ امام عطاء بن ابی رباح، امام مکحول شامی(خصوصاً حدیثہ في القراء ۃ خلف الإمام عنعن فیہ) امام ضحاک بن مزاحم، امام عبداللہ بن زید ابو قلابہ جرمی، امام ابو العالیہ، رفیع بن مہران رحمہم اللہ وغیرہ کی ’’عن‘‘ والی ساری روایات اس شبہ انقطاع کی بنا پر ’’ضعیف‘‘ قرار پائیں گی، کیوں کہ یزید بن عبداللہ بن قسیط کی طرح یہ مذکور ائمہ بھی ’’کثیر الارسال‘‘ ہیں ، حالانکہ ان کی ایسی روایات سب کے ہاں معتبر ہیں ۔ معلوم ہوا کہ یہ حدیث بہر حال حسن درجہ کی ہے۔ وفات کے بعد والا سلام مراد ہے: حدیث کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سلام سے ہے۔ سلام مأمور اور سلامِ تحیۃ میں فرق : سلام دو طرح کا ہوتا ہے : 1. سلام مامور، یہ نماز وغیرہ میں پڑھا جاتا ہے، اس کا جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود نہیں |