شہر ذکر کیے گئے ہیں ، جو کہ اب کسی اور نام سے معروف ہیں ، عین ممکن ہے کہ ان کے علاقے کو بھی اسکندریہ کہا جاتا ہو۔ محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قُلْتُ : وَ ہُوَ الْمُقْرِیُٔ، ثِقَۃٌ مِّنْ رِّجَالِ الشَّیْخَیْنِ ۔ ’’یہ (عبداللہ بن یزید اسکندرانی)مقری ہی ہیں ، جو کہ ثقہ ہیں ، صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی ہیں ۔‘‘ (سِلسِلۃ الأحادیث الصّحیحۃ : 5/338،ح : 2266) اگر اس میں عبداللہ بن یزید اسکندرانی کو مجہول قرار دیا جائے، تو لامحالہ سنن ابی داؤد والی سند ’’حسن‘‘ ہوجائے گی، کیونکہ اس کے ضعیف ہونے پر سوائے اس روایت کے اور کوئی دلیل نہیں کہ طبرانی اوسط میں یزید بن عبداللہ بن قسیط اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو صالح کا واسطہ موجود ہے، جبکہ سنن ابی داؤد میں موجود نہیں ، اگر طبرانی اوسط والی یہ سند ضعیف ہے، تو سنن ابی داؤد کی سند میں موجود انقطاع کی یہ دلیل ختم ہوجائے گی اور پھر اسے منقطع کہنا بلا دلیل ہو گا۔ اگرچہ یزید بن عبداللہ بن قسیط ’’کثیر الارسال‘‘ ہیں ، لیکن صرف یہ شبہ اس سند کے ضعف کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ شاید یہاں بھی انہوں نے ارسال کر کے کوئی واسطہ گرایا ہو اور براہ راست سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کر دیا ہو۔ یاد رہے کہ یزید بن عبداللہ بن قسیط کا سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لقا وسماع ثابت ہے۔ (السّنن الکبرٰی للبیہقي : 1/122، ح : 598، وسندہٗ جیّدٌ) امام مسلم رحمہ اللہ نے اس اصول پر محدثین کرام کا اجماع نقل کیا ہے کہ ’’غیر مدلس‘‘راوی اگر ’’عن‘‘ سے روایت کرے اور اپنے شیخ سے اس کا سماع و لقاثابت نہ ہو، بل کہ اس کا امکان ہو تو بھی روایت اتصال پر محمول ہو گی، چہ جائے کہ کسی جگہ اس کے سماع کی صراحت مل |