سہل دمیاطی پر جرح مقبول نہیں ۔ اس سے محدث البانی رحمہ اللہ کی خطا بھی واضح ہو جاتی ہے۔ وہ بکر کے بارے کہتے ہیں : ضَعَّفَہُ النَّسَائِيُّ، وَلَمْ یُوَثِّقْہُ أَحَدٌ ۔ ’’اسے امام نسائی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے،کسی نے توثیق نہیں کی۔‘‘ (سِلسلۃ الأحادیث الضّعیفۃ والموضوعۃ : 14/562) امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح ثابت نہیں ، ان کے بیٹے عبدالکریم کے حالات نہیں مل سکے۔ رہا مسلمہ بن قاسم، تو وہ خود مجروح ہے۔ تنبیہ : طبرانی کی سند میں حیوۃ بن شریح کے شاگرد عبداللہ بن یزید اسکندرانی ہیں ، جن کا کتب تواریخ و رجال میں ذکر ہی نہیں ۔ دیگرکتابوں میں اس کی جگہ عبداللہ بن یزید مقری ہیں ، جو کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے معروف راوی ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ طبرانی میں مذکور عبداللہ بن یزید اسکندرانی دراصل مقری ہیں ، کیونکہ حیوۃ بن شریح کے شاگردوں میں کوئی اور عبداللہ بن یزید موجود نہیں ۔ طبرانی رحمہ اللہ نے اس کی دوسری سند بھی ذکر کی ہے،جس میں اگرچہ یزید بن عبداللہ بن قسیط اور سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو صالح کا واسطہ موجود نہیں ، لیکن امام صاحب کے استاذ کے شیخ عبداللہ بن یزید کے نام کے ساتھ ’’مقری‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سنن ابو داؤد وغیرہ میں ہے۔ انہیں اسکندرانی کہے جانے کی وجہ شاید یہ ہے کہ معجم البلدان میں اسکندریہ نامی تیرہ (۱۳) |