سخت ’’ضعیف‘‘ہے، وہی علتیں ہیں جن کا ذکر مذکورہ بالا روایت میں کیا جا چکا ہے۔ 11. حاتم بن وردان کا بیان ہے : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یُوَجِّہُ بِالْبَرِیدِ قَاصِدًا إِلَی الْمَدِینَۃِ، لِیُقْرِیَٔ عَنْہُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ’’عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ایک قاصد کو ڈاک دے کر مدینہ کی طرف روانہ کرتے کہ وہ ان کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرے۔‘‘ (شُعَب الإیمان للبیھقي : 3869) سند ’’ضعیف‘‘ اور باطل ہے۔ 1. ابراہیم بن فراس کی توثیق نہیں ملی۔ 2. اس کا استاذ احمد بن صالح رازی ’’مجہول‘‘ ہے۔ 12. یزید بن ابوسعید مقبری بیان کرتے ہیں : قَدِمْتُ عَلٰی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ؛ إِذْ کَانَ خَلِیفَۃً، بِالشَّامِ، فَلَمَّا وَدَّعْتُہٗ، قَالَ : إِنَّ لِي إِلَیْکَ حَاجَۃً، إِذَا أَتَیْتَ الْمَدِینَۃَ، فَتَرٰی قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فَاقْرَئْ ہُ مِنِّي السَّلَامَ ۔ ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانہ خلافت میں ان کے پاس شام گیا، واپس ہونے لگا، تو انہوں نے فرمایا : آپ سے ایک کام ہے۔ وہ یہ کہ جب مدینہ منورہ جاؤ اور قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرو، تو میراسلام پیش کرنا۔‘‘ (شُعَب الإیمان للبیھقي : 3870، تاریخ ابن عساکر : 65/203) |