’’موضوع‘‘ ہے۔ محمد بن مروان سدی صغیر اور محمد بن یونس بن موسیٰ کدیمی ’’وضاع‘‘ ہیں ۔ اعمش کا ’’عنعنہ‘‘ بھی ہے۔ تنبیہ : سدی صغیر کی متابعت ابو معاویہ محمد بن خازم ضریر نے کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي؛ سَمِعْتُہٗ، وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ مِنْ بَعِیدٍ أُعْلِمْتُہٗ ۔ ’’میری قبر کے پاس درود پڑھیں گے، تومیں خود سنوں گااور اگردرود بھجیں گے، مجھے بتا دیا جائے گا۔‘‘ (الصّلاۃ علی النّبي لأبي الشّیخ نقلًا عن جلاء الأفہام لابن القیّم، ص 19، الثّواب لأبي الشّیخ نقلًا عن اللّـآلي المصنوعۃ للسّیوطي:1/283) سند ’’ضعیف‘‘ہے، ابو صالح عبدالرحمن بن احمد بن ابی یحییٰ اعرج کی توثیق نہیں ، اگرچہ امام ابو الشیخ رحمہ اللہ (الطبقات : 3/451) اور امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ (اخبار اصبھان : 3/113) نے اس کے حالات ِزندگی درج کیے ہیں ، نیز اس میں اعمش کا عنعنہ بھی ہے۔ لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباري : 6/488)اور حافظ سخاوی رحمہ اللہ (القول البدیع، ص 154) کا اس کی سند کو ’’جید‘‘ کہنا درست نہیں ۔ 3. سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَکْثِرُوا الصَّلَاۃَ عَلَيَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَإِنَّہٗ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ، تَشْہَدُہُ الْمَلَائِکَۃُ، لَیْسَ مِنْ عَبْدٍ یُّصَلِّي عَلَيَّ؛ إِلَّا بَلَغَنِي صَوتُہٗ حَیْثُ کَانَ ۔ ’’جمعہ کے دن مجھ پر بہ کثرت درود پڑھنا،اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔جو |