’’میں حدیث لکھا کرتا تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا، تو (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ) لکھ دیتا، (وَسَلَّمَ)نہ لکھتا۔ ایک دن خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، فرمایا : درود پورا کیوں نہیں لکھتے؟ اس کے بعد جب بھی میں نے (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ)لکھا، تو سا تھ (وَسَلَّمَ) بھی لکھا۔‘‘ (مقدمۃ ابن الصّلاح، ص 300، وسندہ صحیحٌ) ٭ علامہ طیبی رحمہ اللہ (م : 743ھ) لکھتے ہیں : إِنَّ الصَّلَاۃَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِبَارَۃٌ عَنْ تَعْظِیمِہٖ وَتَبْجِیلِہٖ، فَمَنْ عَظَّمَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَبِیبَہٗ؛ عَظَّمَہُ اللّٰہُ، وَرَفَعَ قَدْرَہٗ فِي الدَّارَیْنِ، وَمَنْ لَّمْ یُعَظِّمْہُ؛ أَذَلَّہٗ اللّٰہُ، فَالْمَعْنٰی : بَعِیدٌ مِّنَ الْعَاقِلِ، بَلْ مِنَ الْمُؤْمِنِ الْمُعْتَقِدِ أَنْ یَّتَمَکَّنَ مِنْ إِجْرَائِ کَلِمَاتٍ مَّعْدُودَۃٍ عَلٰی لِسَانِہٖ، فَیَفُوزُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ مِّنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَ، وَبِرَفْعِ عَشْرِ دَرَجَاتٍ لَّہٗ، وَبِحَطِّ عَشْرِ خَطِیئَاتٍ عَنْہُ، ثُمَّ لَمْ یَغْتَنِمْہُ حَتّٰی یَفُوتَ عَنْہُ، فَحَقِیقٌ بِأَنْ یَّحْقِرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَیَضْرِبَ عَلَیْہِ الذِّلَّۃَ وَالْمَسْکَنَۃَ، وَبَائَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَمِنْ ہٰذَا الْقَبِیلِ عَادَۃُ أَکْثَرِ الْکُتَّابِ أَنْ یَّقْتَصِرُوا فِي کِتَابَۃِ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرَّمْزِ ۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم ہے۔جو اللہ کے رسول اور اس کے حبیب کی تعظیم کرے گا،اللہ اسے عظمت عطا فرمائیں گے اور دنیا و |