امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر ’’صحیح‘‘کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (مَجمع الزّوائد : ۳/۵۱۔۵۲)نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے ۔ امام ثابت بنانی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے : اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ أَعْطَیْتَ أَحَدًا أَنْ یُّصَلِّيَ لَکَ فِي قَبْرِہٖ؛ فَأَعْطِنِي ذٰلِکَ ۔ ’’اے اللہ! اگر تو کسی کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنی قبر میں تیرے لیے نماز پڑھے، تو مجھے یہ توفیق دینا۔‘‘ (مسند عليّ بن الجعد : 1379؛ المَعرِفۃ والتّاریخ للفَسوي : 2/59؛ شُعَب الإیمان للبیہقي : 3/155؛ ح : 1391، وسندہٗ صحیحٌ) عظیم تابعی کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبر میں صلوۃ سے مراد نماز ہی ہے، نہ کہ درود وغیرہ۔ قارئین! اب مسئلہ واضح ہوگیا ہے کہ واقعی اس سے سلف کی مخالفت لاز م آتی ہے، کیوں کہ اگر ان دلائل سے درود مراد ہوتا تو سلف صالحین ضرور بیان کرتے ۔ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (۷۳۷ھ) لکھتے ہیں : مَا حَدَثَ بَعْدَ السَّلَفِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ لَا یَخْلُو إِمَّا أَنْ یَّکُونُوا عَلِمُوہُ، وَعَلِمُوا أَنَّہٗ مُوَافِقٌ لِّلشَّرِیعَۃِ وَلَمْ یَعْمَلُوا بِہٖ، وَمَعَاذَ اللّٰہِ أَنْ یَّکُونَ ذٰلِکَ، إِذْ إِنَّہٗ یَلْزَمُ مِنْہُ تَنْقِیصُہُمْ وَتَفْضِیلُ مَنْ بَعْدَہُمْ عَلَیْہِمْ، |