Maktaba Wahhabi

183 - 198
جَائَ فِي بَعْضِ الرِّوَایَاتِ، وَلِأَنَّ عَادَۃَ الْعَرَبِ أَنَّ الْقَبِیلَۃَ تَخْدُمُ کَبِیرَہَا، فَلِذٰلِکَ خُصَّ الْـأَنْصَارُ بِذٰلِکَ دُونَ الْمُہَاجِرِینَ، مَعَ أَنَّ الْمُرَادَ بَعْضُ الْـأَنْصَارِ لَا کُلُّہُمْ، وَہُمُ الْـأَوْسُ مِنْہُمْ، لِأَنَّ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ کَانَ سَیِّدَہُمْ دُونَ الْخَزْرَجِ، وَعَلٰی تَقْدِیرِ تَسْلِیمِ أَنَّ الْقِیَامَ الْمَأْمُورَ بِہٖ حِینَئِذٍ لَّمْ یَکُنْ لِّلْإِعَانَۃِ؛ فَلَیْسَ ہُوَ الْمُتَنَازَعُ فِیہِ، بَلْ لِّأَنَّہٗ غَائِبٌ قَدِمَ، وَالْقِیَامُ لِلْغَائِبِ إِذَا قَدِمَ؛ مَشْرُوعٌ ۔ ’’اگر سعد رضی اللہ عنہ کے لیے قیام کے حکم سے مراد تعظیمی قیام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم میں انصار کو خاص نہ کرتے، کیوں کہ نیکی کے کاموں میں اصل عموم ہوتا ہے۔ اگر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑا ہونا عزت اور نیکی کے لیے ہوتا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ایساخود کرتے اوروہاں موجود اکابر صحابہ کو اس کا حکم دیتے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکابر صحابہ کو حکم نہیں دیا،نہ ہی خود ایسا کیا ،نہ صحابہ کرام نے قیام کیا تو معلوم ہوا کہ قیام کا یہ حکم تعظیم کے لئے نہیں تھا۔یہ تو صرف سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو سواری سے اُتارنے کے لیے تھا،کیوں کہ وہ اس وقت بیمار تھے،جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ یہ عربوں کی عادت بھی تھی کہ پورا قبیلہ اپنے بڑے کی خدمت کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صرف انصار کو دیا، مہاجرین کو نہیں ۔ پھر اس سے مراد سارے انصار بھی نہیں ،بل کہ بعض انصار،یعنی قبیلہ اوس کے لوگ تھے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اوس کے ہی سردار تھے، خزرج کے نہیں ۔اگریہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس وقت قیا م کا حکم سیدناسعد رضی اللہ عنہ کو سواری سے اُتارنے کے لیے نہیں
Flag Counter