تھا، تو بھی یہ قیام تعظیمی نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہ قیام ایک غائب کے آنے کی وجہ سے تھا اور کسی آنے والے کے لئے کھڑا ہونا شرعاجائز ہے۔‘‘ (فتح الباري لابن حجر : 11/51) اگر اس قیام کو اکرام پر محمول کیا جائے، تو یہ بھی ہمارے نزدیک مشروع ہے ۔ ٭ امام حماد بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں : کُنَّا عِنْدَ أَیُّوبَ، فَجَائَ یُونُسُ، فَقَال حَمَّادٌ : قُومُوا لِسَیِّدِکُمْ، أَوْ قَالَ : لِسَیِّدِنَا ۔ ’’ہم امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کے پاس تھے۔ امام یونس رحمہ اللہ آئے، تو امام حماد رحمہ اللہ نے فرمایا : اپنے سردار یا ہمارے سردار کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔‘‘ (الجامع لأخلاق الرّاوي وآداب السّامع للخطیب : 302، وسندہٗ حسنٌ) ٭ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قَامَ إِلَيَّ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ یُہَرْوِلُ حَتّٰی صَافَحَنِي وَہَنَّأَنِي، وَاللّٰہِ، مَا قَامَ إِلَيَّ رَجُلٌ مِّنَ الْمُہَاجِرِینَ غَیْرُہٗ ۔ ’’سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ میرے استقبال کو لپکے، مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! ان کے علاوہ مہاجرین سے کوئی بھی میرے استقبال میں کھڑا نہیں ہوا۔‘‘ (صحیح البخاري : 4418، صحیح مسلم : 2769) یہ قیام استقبال کی غرض سے تھا جو کہ جائز ومباح ہے ۔ |