لَمْ أَعْرِفْہُ ۔ ’’میں اسے پہچان نہیں سکا۔‘‘(مَجمع الزّوائد : 9/271) اس کی متابعت ایک اور راوی عثمان بن محمد بن عثمان نے بھی کی ہے ۔ (تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 11/292) اس کے بارے میں بھی توثیق ثابت نہیں ، لہٰذا یہ سند بھی ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 3. عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے : لَمَّا بَلَغَ بَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَبْشَرَ، وَوَثَبَ لَہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمًا عَلٰی رِجْلَیْہِ، فَرَحًا بِقُدُومِہٖ ۔ ’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کے آنے کی خوشی میں جلدی سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔ ‘‘ (المَغازي للواقدي : 2/850؛ المستدرک للحاکم : 3/269) جھوٹ ہے۔ ۱۔ محمد بن عمر واقدی ’’ضعیف،متروک وکذاب‘‘ ہے۔ ۲۔ ابوبکر بن عبداللہ بن ابو سبرہ ’’وضاع‘‘ اور کذاب ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یَضَعُ الْحَدِیثَ ۔ ’’یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔‘‘ (الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم : 7/306) 4. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری قیام گاہ میں تشریف فرما تھے۔ زید رضی اللہ عنہ نے دروازے پر دستک دی: قَامَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُرْیَانًا یَّجُرُّ ثَوْبَہٗ، وَاللّٰہِ، مَا |