Maktaba Wahhabi

175 - 198
یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ آنے کا ارادہ ہو ۔ جب وہ ناامید ہوجاتے تو چلے جاتے۔ دوبارہ نہ بیٹھتے، کیوں کہ آپ کے بعد محفل کی حلاوت ختم ہو جاتی تھی۔‘‘ (مِرقاۃ المَفاتیح : 13/488) لہٰذایہ کہنا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہوتے تھے، درست نہ ہوا۔ نیز اسے دلیل بنا کر درود کے لیے یا آپ کے ذکر کی تعظیم میں کھڑا ہونا غلط دَر غلط ہے۔ 2. سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : لَمَّا قَدِمَ جَعْفَرٌ مِّنْ ہِجْرَۃِ الْحَبَشَۃِ؛ تَلَقَّاہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَانَقَہٗ، وَقَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ، وَقَالَ : مَا أَدْرِي بِأَیِّہِمَا أَنَا أَسُرُّ؛ بِفَتْحِ خَیْبَرَ أَوْ بِقُدُومِ جَعْفَرٍ؟ ’’جعفر رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال کیا، ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا : مجھے معلوم نہیں کہ دو چیزوں میں زیادہ خوشی مجھے کس بات کی ہے، فتح خیبر کی یا جعفر کی آمد کی؟‘‘ (المُعجم الکبیر : 2/108؛ المُعجم الأوسط : 2003؛ المُعجم الصّغیر للطّبراني : 30) سند ’’ضعیف‘‘ہے۔ احمد بن خالد حرانی کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضَعِیفٌ، لَیْسَ بِشَيْئٍ، مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَثْنٰی عَلَیْہِ ۔ ’’ضعیف ہے۔ کسی کام کا نہیں ۔ میں نے کسی کو اس کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔‘‘ (سؤالات حمزۃ السّہمي، ص 148) حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وَاہٍ ۔ ’’ کمزور ہے۔‘‘(المُغني : 1/65) اس کے متابع انس بن سلم کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
Flag Counter