الَّذِي جَبَذَ رِدَائَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا رَجُلًا فَأَمَرَہٗ أَنْ یَّحْمِلَ لَہٗ عَلٰی بَعِیرِہٖ تَمْرًا وَّشَعِیرًا، وَفِي آخِرِہٖ : ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا، فَقَالَ : انْصَرِفُوا رَحِمَکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی ۔ ’’جو بات میرے ذہن میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے تک صحابہ کرام کے کھڑے رہنے کا سبب شاید یہ ہو کہ پیش نظر یہ احتمال ہوتا تھا کہ ان کے چلے جانے کے بعد کسی ضرورت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں بلانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔پھر میں نے سنن ابوداؤد کی طرف رجوع کیا، تو اس حدیث کے آخر میں مجھے وہ الفاظ مل گئے جو میری اس بات کی تائید کرتے ہیں ۔ وہ اعرابی کا واقعہ ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کو کھینچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بلایا اور حکم دیا کہ وہ اس اعرابی کے اونٹ پر کھجور اور جَو لاد دے۔ اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اللہ آپ لوگوں پر رحم کرے،اب آپ جاسکتے ہیں ۔‘‘ (فتح الباري : 11/52) 3. علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (۱۰۱۴ھ) لکھتے ہیں : لَعَلَّہُمْ کَانُوا یَنْتَظِرُونَ رَجَائَ أَنْ یَّظْہَرَ لَہٗ حَاجَۃٌ إِلٰی أَحَدٍ مِّنْہُمْ، أَوْ یَعْرِضَ لَہٗ رُجُوعٌ إِلَی الْجُلُوسِ مَعَہُمْ، فَإِذَا أَیِسُوا؛ تَفَرَّقُوا، وَلَمْ یَقْعُدُوا لِعَدَمِ حَلَاوَۃِ الْجُلُوسِ بَعْدَہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ ۔ ’’وہ اس امید سے انتظار کرتے تھے کہ شاید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی سے کام پڑ جائے |