بَدَلَہُ الصَّلَاۃَ وَالسَّلَامَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَنِعْمَ مَا فَعَلَ، فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا، وَلَقَدِ اسْتُفْتِيَ مَشَایِخُنَا وَغَیْرُہُمْ فِي الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْـأَذَانِ عَلَی الْکَیْفِیَّۃِ الَّتِي یَفْعَلُہَا الْمُؤَذِّنُونَ، فَأَفْتَوْا بِأَنَّ الْـأَصْلَ سُنَّۃٌ وَّالْکَیْفِیَّۃَ بِدْعَۃٌ، وَہُوَ ظَاہِرٌ ۔ ’’موذنوں نے اذان کے بعد درود وسلام کی بدعت رائج کر لی ہے، یہ لوگ فجر اور جمعہ کی اذان سے پہلے درود و سلام پڑھتے ہیں اور مغرب میں پڑھتے ہی نہیں ، کیوں کہ وقت قلیل ہوتا ہے۔ اس بدعت کی ابتدا سلطان ناصر صلاح الدین بن ایوب کے دور میں ہوئی اور اسی کے حکم سے مصر اور اس کی عمل داری والے علاقوں میں اس کا اجرا ہوا۔ یہ بدعت اس طرح شروع ہوئی کہ جب حاکم مخذول قتل ہوا، تو اس کی بہن نے مؤذنوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے بیٹے کے حق میں امام طاہر پر سلام کہیں ۔بعد والے خلفا پر بھی سلام کہا جاتا رہا،پھرصلاح الدین نے اسے ختم کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام شروع کرا دیا۔اس نے بہت اچھا کیا۔اللہ اسے جزاے خیر دے۔ ہمارے مشایخ اور دیگر اہل علم سے پوچھا گیا کہ ان مؤذنوں کی طرح اذان کے بعد درود وسلام کیسا ہے؟تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ درود وسلام فی نفسہ تو سنت ہے، لیکن یہ طریقہ بدعت ہے۔ جو کہ بالکل واضح ہے۔‘‘ (الفتاویٰ الفقہیۃ الکبریٰ : 1/131) اذان کے بعد درود وسلام مسنون ہے، لیکن اس کا وہ طریقہ بدعت ہو گا، جو اسلاف |