سے چھوٹا تھا۔ پہلا تشہد درود سمیت بھی دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا ہو سکتا ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250ھ)لکھتے ہیں : لَیْسَ فِیہِ إِلَّا مَشْرُوعِیَّۃُ التَّخْفِیفِ، وَہُوَ یَحْصُلُ بِجَعْلِہٖ أَخَفَّ مِنْ مُّقَابِلِہٖ ۔ ’’اس میں صرف اتنا ہے کہ پہلا تشہد چھوٹا کرنا مشروع ہے، یہ دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا کر کے بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ (نیل الأوطار : 2/333) 2. تمیم بن سلمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کَانَ أَبُو بَکْرٍ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ؛ کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضْفِ، یَعْنِي حَتّٰی یَقُومَ ۔ ’’سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ دو رکعت کے بعد بیٹھتے،تو یوں محسوس ہوتا جیسے گرم پتھر پر ہوں ،حتی کہ اٹھ جاتے۔‘‘ (مصنّف ابن أبي شیبۃ : 1/295) سند منقطع ہے، تمیم بن سلمہ کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر : 1/263، تحت الحدیث : 406)کا اس کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دینا درست نہیں ۔ 3. سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے : مَا جُعِلَتِ الرَّاحَۃُ فِي الرَّکْعَتَیْنِ إِلَّا لِلتَّشَہُّدِ ۔ ’’دو رکعت کے بعد بیٹھنے کا موقع صرف تشہد پڑھنے کے لیے ہے۔‘‘ (مصنّف ابن أبي شیبۃ : 1/295) سند ’’ضعیف‘‘ ہے، عیاض بن مسلم ’’مجہول الحال‘‘ ہے۔ صرف ابن حبان رحمہ اللہ نے |