بیٹھے ہوں ۔‘‘ (مسند أحمد : 1/386، سنن أبي داوٗد : 995، سنن النسائي : 1177، سنن التّرمذي : 366) ’’مرسل‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے، ابو عبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اَلرَّاجِحُ أَنَّہٗ لَا یَصِحُّ سَمَاعُہٗ مِنْ أَبِیہِ ۔ ’’راجح یہی ہے کہ ابو عبیدہ کا اپنے والدسے سماع ثابت نہیں ۔‘‘ (تقریب التّہذیب : 8231) نیز فرماتے ہیں : إِنَّہٗ عِنْدَ الْـأَکْثَرِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ ۔ ’’جمہور کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے سماع نہیں کیا۔‘‘ (مُوافقۃ الخبر الخبر : 1/364) لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ (1؍ 296)کا اس روایت کو ’’امام بخاری و مسلم رحمہمااللہ کی شرط پر صحیح‘‘ قرار دینا درست نہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہُوَ مُنْقَطِعٌ، لِأَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ ۔ ’’منقطع ہے، کیوں کہ ابو عبیدہ نے اپنے والدسے سماع نہیں کیا۔‘‘ (التّلخیص الحبیر : 1/263، ح : 406) اس سے پہلے تشہد میں درود کی نفی نہیں ہوتی،بل کہ صرف اتنا ہے کہ پہلا تشہد،دوسرے |