Maktaba Wahhabi

107 - 198
’’فرضیت درودکے خلاف کسی دور میں بھی اجماع نہیں ہو ا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر : 6/460، بتحقیق سلامۃ) 2. سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَّدْعُو فِي صَلَاتِہٖ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَجِلَ ہٰذَا، ثُمَّ دَعَاہُ، فَقَالَ لَہٗ أَوْ لِغَیْرِہٖ : إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ؛ فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیدِ اللّٰہِ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ، ثُمَّ لْیُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لْیَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَائَ ۔ ’’ایک شخص نماز میں دعا مانگ رہا تھا، اس نے درود نہیں پڑھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا : اس نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر آپ نے اسے یا کسی اور کو بلا کر فرمایا : دعا سے پہلے حمد وثنا اور درود پڑھ لیا کریں ، اس کے بعد جو چاہیں مانگتے رہیں ۔‘‘ (مسند أحمد : 6/18؛ سنن أبي داوٗد : 1481، سنن التّرمذي : 3477؛ وسندہٗ حسنٌ) اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح‘‘، امام ابن خزیمہ (۷۱۰) اور امام ابن حبان (۱۹۶۰) رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے، امام حاکم رحمہ اللہ (۱/۲۳۰،۲۸۶) نے ’’امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قَدْ وَرَدَ فِي الصَّلَاۃِ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا یَدُلُّ عَلَی
Flag Counter