Maktaba Wahhabi

605 - 717
سے آیا تھا اور پالا کس سے پڑا۔ دراصل یہ سب کچھ اس شعر کا مصداق ہے: بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘[1] ۱۳۲۷ھ/ ۱۹۰۹ء کے آخر میں آرہ میں منظر الاسلام کے نام سے ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں دیوبندی احناف اور اہلِ حدیث کو بھی مدعو کیا گیا، تاہم جلسے میں تمام تقاریر فضلائے بریلی کے ہم نواؤں نے کیں ۔ مولانا احمد رضا بریلوی کی بھی تقریر ہوئی۔ ایک واعظ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کیا۔ جلسے کے اختتام پر جماعتِ اہلِ حدیث آرہ کی طرف سے، جس کا مرکز اس وقت ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ تھا، ایک خط فاضل بریلوی کو بھیجا گیا جس میں لکھا گیا تھا کہ جلسے کے ایک واعظ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کے متعلق بیان کیا ہے جو در حقیقت آپ ہی کے خیالات کی عکاسی ہے، اور چونکہ یہ بھی آپ کی جانب سے کہا گیا کہ جس کا جی چاہے مجھ سے سمجھ لے۔ اس لیے گزارش ہے کہ آرہ میں آپ کی آمد سے یہ موقع آگیا ہے۔ اب ہم لوگ چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ آرہ میں اسی آمد میں صاف ہو جائے۔ اگر آپ لوگ اپنے اعلان پر ثابت رہ کر اس پر تیار ہیں تو مطلع فرمائیے تاکہ شروطِ مناظرہ باہم طے ہوں ۔ اس سے قبل اسی مسئلے پر احناف کی جانب سے مولانا مرتضیٰ حسن دیوبندی اور مولانا عبد الوہاب بہاری، جبکہ اہلِ حدیث کی جانب سے مولانا ثناء اللہ امرتسری نے بار بار فاضل بریلوی کو دعوتِ مناظرہ دی، مگر ان کی جانب سے جواب ندارد۔ جماعت اہلِ حدیث آرہ کے پیام کے جواب میں پہلے تو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس پر کسی خاص شخص کے دستخط کراؤ۔ چنانچہ اس مکتوب کو فی الفور مولانا عبد النور صاحب کے دستخط سے مزین کراکر واپس بھیجا گیا۔ دوسرے دن اس کا جواب مولوی عبد الاحد قادری کے قلم سے بنام مولانا شاہ عین الحق پھلواروی بھیجا گیا۔ جس میں شاہ صاحب کو لکھا گیا کہ آپ نے اپنے خط پر خود دستخط کیوں نہیں کیے اور کسی عبد النور نامی شخص نے کیوں کر دیے۔ یہ بر بنائے رجوع تھا یا گریز یا کسی اور باعث؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ جو خط فاضل بریلوی کو بھیجا گیا تھا وہ جماعت اہلِ حدیث آرہ کی جانب سے بھیجا گیا تھا وہ شاہ عین الحق پھلواروی کا ذاتی مکتوب نہیں تھا۔ چنانچہ مولوی عبد الاحد قادری کے حیرت انگیز استفسار کے جواب میں ایک مکتوب مولانا ابراہیم محمدی کی جانب سے انھیں لکھا گیا اور دوسرا مکتوب مولانا
Flag Counter