Maktaba Wahhabi

258 - 717
اہلِ حدیث کو منحوس خبر سناتے ہیں ۔ ’’مولانا شاہ عین الحق صاحب سابق سجادہ نشین پھلواری ضلع پٹنہ ایک بزرگ تھے جنھوں نے ہزارہا روپیہ کی جائداد اور معقول آمدنی اور بہت بڑی عزت و آبرو جو ان کی والد کی سجادہ نشینی میں حاصل تھی، محض اتباعِ سنت کے شوق میں چھوڑ کر گوشہ نشین بادیہ گھگھٹہ ضلع چھپرہ ہو گئے۔ اس خاکساری میں بھی علمی مشاغل رکھتے رہے گذشتہ ایام میں دوسری دفعہ فالج ہوا جس کے علاج کے لیے ۲۶ اپریل کو بغرض علاج لکھنؤ کے ارادہ سے نکلے۔ ۲۷ کو لکھنؤ پہنچے۔ خدا کی شان آئے تو ایک مرض (فالج)کے علاج کے لیے تھے، مگر خدائے حکیم نے لکھنؤ پہنچتے ہی تمام امراض سے شفا بخش دی۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون ’’مرحوم کی عمر ۴۴، ۴۵ سال ہو گی۔ ایک لڑکا اور شائد لڑکیاں بھی ہیں ۔ لڑکے کی نگہداشت کرنا جماعت اہلِ حدیث کا فرض ہے۔ میں نے اپنی رائے متعلقین کو لکھی ہے کہ میرے نزدیک بچے کی تربیت کے لیے سب سے احسن صورت یہ ہے کہ تعلیم کے لیے جناب مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری کے پاس رہے اور وظیفہ اہلِ حدیث کانفرنس سے ملے۔ اللہ تعالی مرحوم کو بخشے اور جماعت اہلِ حدیث کو نعم البدل عطا فرما دے۔‘‘[1] شا ہ محمد جعفر پھلواروی کا تاثر: مولانا کے بھانجے شاہ محمد جعفر اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’میں ان کا سب سے چھوٹا بھانجا تھا، مجھ پر بے حد شفقت و رحمت فرماتے تھے۔ زیادہ محبت کی وجہ غالباً یہ تھی کہ میں ان کی مرحومہ ہمشیرہ کی آخری یادگار تھا اور شیر خوارگی میں ہی میری والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ طبیعت میں بے حد زندہ دلی تھی۔ ان کا ہنستا ہوا نورانی چہرہ اور جھلکتے ہوئے دانت اب تک میرے دل پر نقش ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب کسی مجمع میں ہوتے تو بڑے بڑے وجیہ چہروں کی وجاہتیں ان کے سامنے ماند پڑ جاتی تھیں ، خصوصاً اس وقت (جب) عربی رومال بالکل بے تکلفی کے ساتھ اپنے سر پر
Flag Counter