Maktaba Wahhabi

381 - 717
کی جانب سے اس کا جواب بھی لکھا جس کا نام ’’رجم الشبہات‘‘ رکھا۔ اس سے عوام میں بڑی گمراہی پھیلی۔ یہ دیکھ کر سب سے پہلے قاضی بشیر الدین محدث قنوجی نے اصل حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ نفسِ کتاب جسے منسوب کیا گیاہے اور اس کا جو جواب علمائے حرمین کی طرف منسوب کیا گیا، دونوں ہی جعلی ہیں ۔ اس کے بعد مولانا تلطف حسین کو تحریک ہوئی کہ وہ اصل کتا ب حاصل کریں اور اس کی طباعت کریں ۔ چنانچہ انھوں نے اصل کتاب کی تلاش شروع کر دی۔ انھیں کتاب کے کئی نسخے حاصل ہو گئے، تاہم ان نسخوں پر مولانا ممدوح کو اطمینانِ کامل نہ ہو سکا۔ حسنِ اتفاق سے انھیں اس کتاب کا ایک مستند ترین نسخہ حاصل ہوا جو صاحبِ کتاب شیخ محمد بن عبد الوہاب کی پوتی کے نسخے کی نقل اور اسی سے تصحیح کیا ہوا تھا۔ اسی زمانے میں مولانا عبد الحلیم شررؔ لکھنؤ میں سیّد میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی درس گاہِ حدیث میں اکتسابِ علم کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ چنانچہ مولانا تلطف حسین کے ایماء پر انھوں نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ مولانا تلطف حسین نے عربی اور اردو ترجمہ ایک ساتھ مطبع فاروقی دہلی سے ۱۳۰۸ھ میں طبع کروایا۔ ۳۶ صفحات پر عربی متن ہے اور ۵۰ صفحات پر اردو ترجمہ۔ مدرسہ ’’ریاض العلوم‘‘ دہلی: مدرسہ ’’ریاض العلوم‘‘ کا شمار دہلی کے ان قدیم مدارس میں سے ہے جو آج بھی زمانے کے سرد و گرم سے گزر کر شمع علم کو روشن کیے ہوئے ہیں ۔ اس مدرسے کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے۔ امداد صابری نے اپنی کتاب ’’دہلی کے قدیم مدارس اور مدرس‘‘ میں اس کا انتہائی مختصر سا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’مدرسہ ریاض العلوم اردو بازار جامع مسجد میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے اور حدیث و تفسیر کے درس ہوتے ہیں ۔‘‘[1] جناب امداد صابری نے تو اپنے مسلکی ذوق و تصلب کے زیرِ تغلب ’’ریاض العلوم‘‘ کو زیادہ اہمیت نہیں دی، لیکن بد قسمتی سے اہلِ حدیث مسلک کے حاملین نے بھی اپنی تاریخِ تدریس میں اس مدرسے کا کماحقہ تذکرہ نہیں کیا۔[2] مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میرا خامہ محض شکایتوں کا دفتر نہ بنے، بلکہ گذشتہ کوتاہیوں کے ازالے کی سعی بھی کرے، اس لیے اس کی مناسب تفصیل درج کیے دیتے ہیں ۔
Flag Counter