Maktaba Wahhabi

308 - 717
سے مستفید ہوئے۔ مولانا نے کتبِ درسیہ کی تحصیل مفتی نعمت اللہ لکھنوی، مفتی واجد علی بنارسی، مولانا نور الحسن کاندھلوی، مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی اور مولانا فضل حق خیر آبادی سے کی۔ کتبِ حدیث سید نذیر حسین محدث دہلوی سے پڑھیں ۔ اس کے بعد اپنے وطن راج گیر واپس آئے۔ اس وقت مولانا کی عمر ۳۵ برس تھی۔ بہار میں مولانا نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اس کے ساتھ ساتھ حفظِ قرآن کریم کی سعادت بھی حاصل کی۔ پھر مولانا سہارن پور تشریف لے گئے جہاں مولانا احمد علی سہارن پوری کے درسِ حدیث میں شرکت کی اور ان سے سند لی۔ پھر مراد آباد تشریف لائے اور وہاں مولانا عالم علی نگینوی سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد عظیم آباد آئے اور مسندِ تدریس آراستہ کی۔ اس کے بعد حجِ بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں حجازِ مقدس میں مختلف علماء و مشائخ سے مستفید ہوئے۔ شیخ عبد الغنی مجددی مہاجر مدنی سے بھی سندِ حدیث لی۔ تدریس: مولانا نے کئی بار مسندِ تدریس آراستہ کی۔ پہلی بار ۱۲۸۰ھ میں جب سید نذیر حسین دہلوی سے اخذِ علم کے بعد عظیم آباد آئے تو سلسلۂ تدریس شروع کیا۔ اسی دوران میں حفظِ قرآن کریم کی سعادت بھی حاصل کی، لیکن پھر جلد ہی کسبِ علم کی غرض سے سہارن پور اور مراد آباد تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو پھر مسندِ تدریس آراستہ کی۔ ۱۲۸۶ھ میں مولانا محمد احسن رئیسِ ڈیانواں کی خواہش پر ڈیانواں میں مسندِ تدریس آراستہ کی۔ اس کے بعد حجِ بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو مولانا کے رفیقِ درس مولانا حکیم دائم علی بہاری ثم ٹونکی نے انھیں ٹونک بلا لیا۔ ۱۲۹۴ھ میں ٹونک گئے اور تقریباً ایک برس سے کچھ زائد عرصہ یہاں فرائضِ تدریس انجام دیتے رہے۔ تلامذہ: مولانا لطف العلی بہاری نے درس و تدریس کا بھرپور دور گزارا۔ان کے تلامذہ میں کبار علمائے ذی اکرام شامل ہیں ، جن کے اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں : 1 علامہ ابو الطیب شمس الحق محدث ڈیانوی 2 مولانا نور احمد ڈیانوی 3 مولانا محمد اشرف شرف الحق ڈیانوی 4 مولانا حافظ تجمل حسین دیسنوی بہاری
Flag Counter