Maktaba Wahhabi

165 - 717
جس کے پہلے جنرل سکرٹری علامہ شمس الحق تھے۔ ان کی وفات کے بعد کچھ عرصہ حکیم محمد ادریس بھی مدرسے کے جنرل سیکرٹری رہے۔ اس بنا پر علمائے صادق پور خصوصاً مولانا عبد الخبیر، مولانا عبد الغفار اور مولانا حکیم عبد الرزاق سے قریبی تعلق رہا۔ حجازِ مقدس میں : حکیم محمد ادریس نے اپنی زندگی کا ایک حصہ مکہ معظمہ میں بھی گزارا۔ کئی مرتبہ حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ وہاں مختلف مشائخ و علماء کے ساتھ روابط رہے۔ شیخ عبد الوہاب علی جان دہلوی ثم مکی، علامہ شمس الحق کے حالات میں ان کی اولاد کے ذکر میں لکھتے ہیں : ’’خلف ولداً صالحاً عالماً فاضلاً و ھو الحکیم محمد إدریس الذي أقام مدۃ بمکۃ المکرمۃ و الآن ھو في بلدتہ‘‘[1] وہاں سلطان عبد العزیز بن سعود کے ساتھ بھی مراسم استوار تھے۔ سلطان ابن سعود نے حیدر آباد دکن میں مملکتِ سعودی عرب کا سفیر مقرر کرنا چاہا، لیکن حکیم صاحب نے معذرت کر لی۔ ہجرت: تقسیمِ وطن کے بعد حکیم صاحب نے غالباً ۱۹۵۸ء میں اپنے صاحبزادے عبد الباسط اور بھتیجوں کے ہمراہ ڈھاکہ (مشرقی پاکستان، حال بنگلہ دیش) مستقل ہجرت کی۔ یہ دورِ آخر تھا، تاہم یہاں بھی کچھ نہ کچھ شغلِ علم جاری رہا۔ علامہ تمنا عمادی اور مفتی عمیم الاحسان کے ساتھ خوب علمی مباحثے ہوتے تھے۔ نکاح و اولاد: ۱۳۱۸ھ میں مولانا نور احمد ڈیانوی کی صاحبزادی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان سے اللہ نے ۳ بیٹے اور ۵ بیٹیاں عطا کیں ۔ ۱۹۱۸ء میں بعارضۂ انفلوئنزا حکیم صاحب کی اہلیہ ۳ بیٹیوں کے ساتھ وفات پا گئی تھیں ۔ ایک صاحبزادے اور ایک صاحبزادی نے بچپن ہی میں وفات پائی تھی۔ حکیم صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا ابو محمد عبد اللہ ڈیانوی ’’ندوۃ العلماء‘‘ سے فارغ التحصیل تھے۔ علمی ذوق و شوق سے بھی بہرہ وافر رکھتے تھے۔ ایک بار مولانا ثناء اللہ امرتسری کے
Flag Counter