Maktaba Wahhabi

448 - 717
ہندوستان میں ایک ہندو بھی باقی نہ رہے گا اور سب مشرف بہ اسلام ہو جائیں گے۔‘‘[1] علامہ حکیم عبد الحی حسنی، مولانا کے تذکرے میں لکھتے ہیں : ’’وکان عابداً متھجداً، یعمل بالنصوص الظاھرۃ، ولا یقلد أحداً من الأئمۃ، ویدرس ویذکر، وکانت مواعظہ مقصورۃ علی الحدیث و القرآن، ویحترز عن إیراد الروایات الضعیفۃ فضلاً عن الموضوعات، ویقرأ القرآن الکریم بلحن شجي یأخذ بمجامع القلوب، وربما تأخذہ الرقۃ في أثناء الخطاب و تأخذ الناس کلھم، فیصیر مجلس موعظتہ مجلس العزاء‘‘[2] ’’آپ بڑے عابد اور تہجد گزار تھے، نصوصِ ظاہرہ پر عمل کرتے اور ائمہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے۔ تدریس و تذکیر میں مشغول رہتے۔ آپ کے مواعظ میں صرف قرآن و حدیث سے بیان ہوتا، ضعیف روایات بیان کرنے سے محترز رہتے، موضوعات سے قطعاً تعرض نہ کرتے۔ قرآن کریم کی تلاوت پُرسوز لہجے میں کرتے جو دلوں پر اثر انداز ہوتی۔ بسا اوقات اثنائے خطاب آپ پر رقت طاری ہو جاتی جس سے لوگ بھی اثر لیتے، اس طرح آپ کی مجلسِ موعظت، مجلسِ تعزیت میں بدل جاتی۔‘‘ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں : ’’مولانا ابو محمد ابراہیم آروی، مشہور اہلِ حدیث عالم ہیں جو ہمارے نانا شاہ ضیاء النبی صاحب کے مرید اور بڑے ربانی، حقانی عالم تھے، ان کا وعظ بڑا مؤثر اور رقت آمیز ہوتا تھا، ان کے ایک وعظ سے ہمارے خاندان کے نوجوانوں کی بڑی اصلاح ہوئی اور ان کی کایا پلٹ گئی۔‘‘[3]
Flag Counter