Maktaba Wahhabi

250 - 717
مولانا شاہ عین الحق نے علامہ ثناء اللہ امرتسری کو لکھا تھا، اس سے ان دونوں بزرگوں کے مخلصانہ روابط کا اندازہ ہوتا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں : ’’إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ آج ہندوستان کا آفتاب شمس الحق و الملۃ و الدین غروب ہو گیا ۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ مولانا اب کیا زندگی کا کوئی مزہ ہے؟‘‘[1] مولانا ثناء اللہ امرتسری سے تعلقِ انس: مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر موسوم بہ ’’تفسیر القرآن بکلام الرحمن‘‘ جب پہلی مرتبہ طبع ہوکر ۱۹۰۳ء بمطابق ۱۳۲۱ھ میں منظرِ شہود پر آئی تو بعض علمائے اہلِ حدیث نے اس پر بڑے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا، بالخصوص علمائے اہلِ حدیث پنجاب کی اکثریت نے اپنی پُرزور بیزاری کا اظہار کیا۔ مولانا حکیم ابو تراب عبد الحق امرتسری نے تفسیر کے رد میں ’’الأربعین في أن ثناء اللّٰه لیس علیٰ مذھب المحدثین‘‘ لکھی، جس میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مولانا ثناء اللہ نے تفسیر میں چالیس مقامات پر ایسی فاش غلطیاں کی ہیں کہ جن کی وجہ سے اب وہ اہلِ حدیث نہیں رہے۔ اس کے جواب میں مولانا ثناء اللہ نے ’’الکلام المبین في جواب الأربعین‘‘ لکھی، مگر اس طرح مسئلہ حل نہ ہوا۔ بالآخر مئی ۱۹۰۵ء کو جلسہ مذاکرہ علمیہ آرہ کے موقع پر یہ معاملہ بر عظیم کے تین جلیل القدر علمائے ذی اکرام کے سپرد کیا گیا، جن کے علم و فضل اور بزرگی پر سب متفق تھے۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں : ٭ علامہ حافظ عبد اللہ غازی پوری۔ ٭ علامہ شمس الحق محدث عظیم آبادی۔ ٭ مولانا شاہ عین الحق پھلواروی۔ ان علمائے ذی اکرام نے یہ فیصلہ دیا کہ مولانا ثناء اللہ گو بعض مسائل میں راہِ صواب سے ہٹ گئے ہیں ، تاہم وہ مسلکِ اہلِ حدیث سے خارج نہیں ۔ اس فیصلے کو سن کر مخالفین کے ایک فریق اور مولانا ثناء اللہ کے استادِ گرامی مولانا احمد اللہ امرتسری نے فرمایا:
Flag Counter