Maktaba Wahhabi

445 - 717
قاضی محمد جعفری مچھلی شہری سے اخذِ علم: مولانا نے اسی اثنا میں قاضی محمد بن عبد العزیز جعفری مچھلی شہری سے بھی سندِ حدیث لی۔ امرتسر، سیّد عبد اللہ غزنوی کے فیضِ تربیت میں : مولانا کی طبیعت میں تقویٰ و تدین اور للہیت و صالحیت شامل تھی، تسکینِ قلب اور حصولِ محبتِ الٰہی کی خاطر صلحا و اتقیا کی صحبت کے متمنی رہا کرتے تھے۔چنانچہ تکمیلِ علم کے بعد سید عبد اللہ غزنوی کی خدمت میں امرتسر شدِّ رحال کیا اور ایک مدت تک ان سے مستفیض ہوئے۔ مولانا ضیاء النبی رائے بریلوی سے استفادہ: اس کے بعد مولانا آروی نے رائے بریلی میں مولانا شاہ ضیاء النبی رائے بریلوی کی خدمت میں بھی حاضر ہوکر استفادہ کیا۔ مسلکِ اہلِ حدیث سے وابستگی: مولانا ابراہیم ابتدا میں حنفی المسلک تھے، تاہم اثنائے کسبِ علم ہی مولانا کا رحجانِ فکر عدمِ تقلید کی طرف مائل ہوا، پھر جیسے جیسے مادئہ تحقیق بڑھتا گیا، ویسے ویسے حصارِ تقلید سے نکلتے چلے گئے، یہاں تک کہ مسلکِ اہلِ حدیث کا شعار اختیار فرما لیا۔ شخصیت کے ہمہ جہت پہلو: مولانا نہایت خوش شکل اور وجیہ شخصیت کے حامل تھے۔ سرخ و سفید رنگ، متناسب اعضا اور نورانی صورت دیکھنے والے پر اچھا تاثر قائم کرتی۔ رموزِ پہلوانی سے بھی واقف تھے مگرعملی زندگی میں قدم زن ہونے کے بعد اس سے کچھ تعلق نہ رہا۔ ایک پر اثرواعظ و خطیب، کہنہ مشق قلم کار، اصنافِ شعر و سخن سے واقف، ماہرِ خوش نویس اور یگانۂ روزگار عالمِ دین تھے۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی سے آشنا تھے۔ مولانا کی شخصیت کا ایک جامع خاکہ پیش کرتے ہوئے مولانا عبد المالک آروی لکھتے ہیں : ’’مولانا مرحوم نہایت حسین اور وجیہ شخصیت رکھتے تھے، گورے چٹے، اعضا متناسب، رموزِ پہلوانی سے واقف، صناعی میں یگانہ، موسیقی کے ماہر، ایک شعلہ بیان خطیب، ایک
Flag Counter