Maktaba Wahhabi

465 - 717
کیا اور تمام تر اختلافات کو اسی وقت فراموش کر دیا۔ اس اتحاد سے ندوہ کی ترویج و ترقی میں بڑا فائدہ ہوا۔ رفع نزاع کے سلسلے میں یہ ندوہ کا پہلا کارنامہ تھا جس کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ اسی اجلاس میں ۳۴ علماء پر مشتمل ایک مجلسِ انتظامی کی تشکیل بھی کی گئی جس کے ایک رکن مولانا موصوف بھی تھے۔ دیگر مشاہیرمیں مولانا محمد علی مونگیری، شاہ محمد سلیمان پھلواروی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا حفیظ اللہ اعظم گڑھی، نواب حبیب الرحمان شروانی، مولانا محمد یونس رئیس دتاولی، مولانا امانت اللہ غازی پوری، مولانا خلیل الرحمان سہارن پوری وغیرہم شامل تھے۔ محرم الحرام ۱۳۱۳ھ کے اجلاس میں مولانا ابراہیم نے بڑے پُر درد انداز میں تقریباً ایک گھنٹا تقریر کی، جس میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت پر زور دیا۔ بقول مولانا اسحاق جلیس ندوی: ’’ان کی تقریر سے لوگوں کے دل دہل گئے اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں ۔‘‘[1] الغرض ’’ندوۃ العلماء‘‘ کی ترقی کے لیے مولانا سے جو کچھ ہو سکتا تھا وہ انھوں نے کیا اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ’’نظارۃ المعارف‘‘بھوپال: مولانا بھوپال کی ’’نظارۃ المعارف‘‘ کے بھی ایک اہم رکن تھے۔ اس ادارے کا پسِ منظر یہ ہے کہ ۱۳۱۵ھ میں رئیسہ عالیہ شاہجہاں بیگم والیۂ بھوپال نے اپنے مرحوم شوہر نواب صدیق حسن خاں کے فرزند اور اپنے سوتیلے بیٹے نواب علی حسن خاں کو ریاست بھوپال کے محکمہ تعلیمات کا افسر اعلیٰ (ڈائریکٹر) مقرر کیا۔نواب صدیق حسن خاں کی وفات کو چند ہی برس ہوئے تھے، دینی علوم کی نشر و اشاعت کے لیے نواب صاحب مرحوم کی مساعی کا رنگ ابھی برقرار تھا۔اس وقت پانچ عربی مدارس بھوپال میں قائم تھے، مگر نتیجہ کچھ نہ تھا، بڑی دگرگوں حالت تھی۔ دینی مدارس کی حالت میں سدھار کی غرض سے ربیع الاول ۱۳۱۷ھ کو نواب علی حسن خاں نے رئیسہ عالیہ کی اجازت سے ’’انجمن نظارۃ المعارف العمومیہ‘‘ قائم کی، جس کا مقصد ہر جہت سے مدارس کی اصلاح و تنظیم تھا۔ ریاست و بیرونِ ریاست کے ماہرِ تعلیم علماء کی نگرانی میں نصابِ تعلیم اور مدارس کی اصلاح کا کام انجام دیا گیا۔ بقول نواب علی حسن خاں :
Flag Counter