Maktaba Wahhabi

489 - 717
مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا ادریس آروی کی وفات پر اپنے تعزیتی شذرے میں لکھتے ہیں : ’’جناب مولانا ابراہیم صاحب آروی مرحوم کے بھائی مولوی حکیم ادریس صاحب نائب مہتمم مدرسہ احمدیہ آرہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انا للہ۔ مرحوم بڑے خاموش اور اَن تھک کارکن تھے۔ مولانا عبد العزیز صاحب رحیم آبادی کے بڑے عزیز تھے۔ مولانا کو آپ کی جدائی کا بہت صدمہ ہوگا۔ خدا مرحوم کو بخشے اور ان کے متعلقین کو صبر جمیل دے۔ مرحوم کی اولادِ نرینہ چار ہیں ۔ خدا ان کو اپنے خاندان کا سچا جانشین بنا دے۔ آمین‘‘[1] مولانا محمد ابراہیم میرؔ سیالکوٹی، مولانا ادریس آروی کی وفات پر اپنے دلِ محزون کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’آہ! مولوی ادریس مرحوم کیسی خوبی کے آدمی تھے، بس واقفوں کے سامنے تو کہنے کی حاجت نہیں اور نا واقفوں کے سامنے کہہ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دیوے۔ مرحوم ہمارے مقاصد کے نہایت کارکن تھے۔ آہ! کیا ان کے بعد آرہ کا جلسہ ہوا کرے گا؟ یا ہم کو وہاں کچھ دل بستگی ہوا کرے گی؟ آہ! جو اٹھ جاتا ہے اس کا کوئی جانشین نظر نہیں آتا۔ میں مرحوم کے فرزندوں کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے باپ کی طرح طریقِ سنت پر چمکا دے۔ آمین‘‘[2] مولانا محمد یوسف رنجورؔ جعفری صادق پوری، مولانا ادریس آروی کے رشتے دار تھے۔ مولانا ادریس کی وفات پر انھوں نے قطعۂ تاریخ لکھا، جس سے ان کی ذاتی عظمت اور ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کے لیے ان کی وقعت کا پتا چلتا ہے۔ قطعہ یہ ہے: آج تاریکی سی کیوں آرے پہ ہے چھائی ہوئی کیا چراغ اس شہر کا بادِ اجل نے گل کیا؟ غم سے کیوں ہیں چور، مسعود و سعود و بو عمیر ان کے سر سے آج کیا سایہ پدر کا اٹھ گیا؟ آہ ! عمی مولوی ادریس صاحب کیا ہوئے ہو گئے صد حیف! کیا وہ راہیِ ملکِ بقا؟
Flag Counter