Maktaba Wahhabi

252 - 717
رفتہ رفتہ پھر اپنی جگہ بنا لینا چاہتے ہیں ۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ چھپنے کے بعد ضرور پیش کروں گا، مگر چھپنے کے پہلے ہی انھوں نے دنیا کو خیرباد کہا۔ افسوس ایسے حق پرست نایاب ہیں ۔‘‘[1] ظاہر ہے کہ یہ محض حافظ محب الحق کا ذاتی تاثر ہے۔ اس میں امرِ واقعہ کتنا ہے اور بیانِ واقعہ کتنا؟ یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس ضمن میں شاہ عین الحق پھلواروی کی کوئی تحریر نہ موصوف پیش کر سکے اور نہ پیش کی جا سکتی ہے۔ پھر جس کتاب ’’شرعۃ الحق‘‘ کا ذکر موصوف نے کیا ہے اس کی طباعت بھی شاہ صاحب کی وفات کے بعد ۱۳۳۹ھ میں پٹنہ سے ہوئی۔ اس عرصے میں کتاب میں اضافے اور تبدیلی دونوں کا قوی امکان موجود ہے۔ کتاب میں بیشتر قرآنی آیات درج کی گئی ہیں جن کی روشنی میں دینی احکامات بیان کیے گئے ہیں ، ظاہر ہے اس سے کون مسلمان انکار کرے گا۔ تاہم ’’شرعۃ الحق‘‘ میں چند مقامات ہیں جو خلافِ حدیث ہیں اور ان مقامات سے یقینا شاہ عین الحق بھی متفق نہیں ہو سکتے تھے۔ ’’شرعۃ الحق‘‘ اور ’’بلاغ الحق‘‘ یہ دونوں ہی کتابیں شاہ صاحب کی وفات کے بعد منظرِ شہود پر آئی ہیں ۔ اس لیے شاہ صاحب اپنے حوالے سے لکھی گئی کسی بات کے ذمے دار نہیں ہو سکتے تھے اور نہ ہی بعد از وفات ان کے لیے کوئی جواب دینا ہی ممکن تھا۔ لیکن جس زمانے میں ’’شرعۃ الحق‘‘ اور ’’بلاغ الحق‘‘ طبع ہو کر منظرِ عام پر آئیں ، مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس کا شافی جواب اپنے اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں کئی اقساط میں دیا۔ یہ جواب خود حافظ محب الحق عظیم آبادی کی زندگی میں شائع ہوا، مگر اس پر حافظ محب الحق نے خاموشی اختیار کی۔ حافظ صاحب نے اپنی تائید میں دو اہلِ حدیث علما شاہ عین الحق اور علامہ عبد اللہ غازی پوری[2] کو پیش کیا تھا۔ مولانا امرتسری نے اس کی بھی خبر لی۔ مولانا امرتسری نے مذکورہ علماء کے تلامذہ و متوسلین سے گزارش کی تھی کہ وہ حقیقتِ حال کو ظاہر کریں ۔ شاہ عین الحق کے حوالے سے ان
Flag Counter