Maktaba Wahhabi

118 - 173
انھوں نے پوری جدوجہد کی اور برصغیر میں ایک تہلکہ بپا کر دیا۔ یہ اس ملک میں احیاے دین کی پہلی باقاعدہ تحریک تھی، جس کا اساسی نقطۂ نظر خالص کتاب وسنت کی ترویج و اشاعت تھا اور جس کے ذریعے مسلمانوں کو دعوتِ جہاد دے کر غیر ملکی اقتدار کا خاتمہ کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان لوگوں نے ملک کو خیر باد کہا اور آرام وآسائش کی زندگی ترک کر کے اپنے آپ کو بے پناہ تکلیفوں اور مصیبتوں کے حوالے کیا۔ نہایت مسرت کے ساتھ جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر، ان نفوسِ قدسیہ نے اپنے گھروں سے کوچ کیا اور سرحد پار کے علاقے کو جو انگریزوں کی دسترس اور غیر مسلموں کی عمل داری سے باہر تھا، اپنا مرکز قرار دے لیا۔ پہلا قافلہ جو پانچ اور چھ سو کے درمیان غازیوں پر مشتمل تھا، 7۔جمادی الاخریٰ 1241ھ (17۔ جنوری 1826ء) کو امیر المجاہدین سید احمد شہید کی قیادت میں روانہ ہوا۔ ان کے پاس کل پانچ ہزار روپے کی رقم تھی، جسے زادِ راہ کہنا چاہیے۔ پنجاب میں سکھوں کی حکومت کی وجہ سے گزرنا مشکل تھا، لہٰذا یہ لوگ راجستھان سے ہوتے ہوئے سندھ پہنچے، وہاں سے قندھار اور پھر کابل گئے۔ کابل سے روانہ ہو کر ہندوستان کی شمال مغربی سرحد میں داخل ہوئے اور آزاد قبائل کو اپنا مسکن ٹھہرایا۔ اس کے بعد برصغیر کے مختلف مقامات سے بکثرت مجاہدین وہاں پہنچنا شروع ہوگئے۔ مجاہدین کے اس مختصر سے قافلے نے جیسے ہی آزاد مرکز میں پڑاؤ ڈالا، سکھوں کی فوج مقابلے کو نکل آئی اور لڑائی کا چیلنج دیا۔ یہ ہنگامی حالات تھے۔ چنانچہ نظم وضبط قائم رکھنے اور مفتوحہ علاقوں کا انتظام کرنے کے لیے ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کی ضرورت محسوس کی گئی، اس لیے 12۔ جمادی الاخریٰ 1242ھ (10۔ جنوری 1827ء) کو ایک عارضی حکومت قائم کردی گئی۔ سید احمد شہید اس حکومت کے امیر مقرر ہوئے۔ سید صاحب کے ہندوستانی رفقا کے علاوہ مقامی علاقے کے پٹھانوں نے بھی سید صاحب
Flag Counter