Maktaba Wahhabi

110 - 173
لیے کہا تو اس کی اطلاع بھوپال میں مولانا محمد بشیر کو پہنچی۔ وہ دہلی تشریف لائے اور ایک مجمعے میں مرزا صاحب سے گفتگو ہوئی۔ موضوع مناظرہ حیات وممات مسیح تھا۔ مرزا صاحب تقریری مناظرے پر رضامند نہ ہوئے تو تحریری بحث شروع ہوئی۔ مرزا صاحب نے پہلے تو حسب عادت تاویلات سے کام لیا، لیکن جب مولانا محمد بشیر کی گرفت مضبوط ہوئی اور انھوں نے حیاتِ مسیح پر دلائل دینا شروع کیے تو مرزا صاحب یہ کہہ کر میدان چھوڑ گئے کہ ان کے’’ خسر‘‘ تشریف لارہے ہیں، ان کے استقبال کے لیے دہلی ریلوے اسٹیشن پر ان کا جانا ضروری ہے۔ مولانا نے ’’خسر‘‘ کا لفظ سنا تو قرآنِ مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: {خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ} [الحج: 11] دہلی شہر میں یہ پہلا مناظرہ تھا جو مرزا غلام احمد قادیانی سے ایک اہل حدیث عالم نے کیا۔غالباً یہی اس شہر میں مرزا صاحب سے آخری مناظرہ تھا۔ اس مناظرے کی تفصیل، اس کا پورا تحریری مواد اور مرزا صاحب کا اس سے فرار سب کتابی شکل میں شائع ہوگیا تھا۔ اس کتاب کا نام ’’الحق الصریح في إثبات حیات المسیح‘‘ تھا۔ کتاب مطبع انصاری دہلی میں چھپی تھی۔ مولانا محمد بشیر سہسوانی نے 29۔جون 1908ء (29۔جمادی الاولیٰ 1326ھ) کو دہلی میں وفات پائی اور اپنے استاذِ عالی مرتبت حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے جوار میں قبرستان شیدی پورہ میں دفن کیے گئے۔ مولانا سیالکوٹی کی 17کتابیں حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی جماعت اہل حدیث کے ممتاز ترین عالم تھے۔ تقریباً 84کتابوں کے مصنف، مفسر قرآن، زوردار مقرر اور بہت بڑے محقق، وسیع المطالعہ اور حاضر جواب مناظر۔ مرزائیت کے خلاف انھوں نے 17کتابیں تصنیف
Flag Counter