Maktaba Wahhabi

105 - 173
مولانا ثناء اللہ امرتسری کی قادیان میں تقریر مرزائیت سے متعلق مولانا ثناء اللہ امرتسری کا تذکرہ بے حدضروری ہے۔ مولانا امرتسری نے اُس عہد میں جس انداز سے مرزائیت کی تردید کی،اس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ تحریری، تقریری اور مناظرانہ صورت میں ہر محاذ پر انھوں نے مرزائیوں کو للکارا۔ مدعیِ نبوت مرزا غلام احمد سے لے کر نیچے درجے کے مرزائی مبلغوں تک کا انھوں نے نہایت جرات سے مقابلہ کیا۔ کبھی خیال نہیں فرمایاکہ جب وہ خود مرزا غلام احمد سے پنجہ آزمائی کر چکے ہیں تو ان چھوٹے درجے کے مبلغوں کو منہ لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ انھوں نے ہمیشہ دینی اہمیت کو پیش نگاہ رکھا اور بڑے چھوٹے ہر مرزائی کا ہر موقعے پر تعاقب کیا۔ وہ پہلے عالم دین ہیں جنھوں نے برسرعام وسیع پیمانے پر مناظروں کی طرح ڈالی۔ 1902ء (1320ھ) میں مرزا صاحب نے ’’اعجاز احمدی‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کتاب میں اس نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کو چیلنج کیا کہ وہ قادیان آئیں اور میرے الہامات کو غلط ثابت کریں۔ ہرالہام کے بدلے میں انھیں ایک سو روپے انعام دیے جائیں گے۔ اگر وہ میرے تمام الہامات کو غلط ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے انعام کے مستحق ہوں گے۔ مرزا صاحب کے اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے وہ 11۔جنوری 1903ء (11۔شوال 1320ھ) کو قادیان پہنچے اور مرزا کو مقابلے میں آنے کی دعوت دی، لیکن وہ مقابلے میں نہیں آئے اور محمد احسن امروہوی کے ہاتھ رقعہ لکھ بھیجا کہ وہ قسم کھا کر اللہ سے عہد کر چکے ہیں کہ کسی سے مناظرہ نہیں کریں گے۔ یہ رقعہ پڑھ کر مولانا امرتسری نے قادیان میں تقریر کی اور مرزا صاحب کو ان کے دعواے نبوت میں جھوٹا ثابت کیا۔ مولانا ممدوح پہلے عالم دین تھے جو مرزا صاحب کے دعواے نبوت کے بعد
Flag Counter