Maktaba Wahhabi

133 - 173
میں نقد روپے بھی بھیجتے تھے اور جہاد کے لیے آدمی بھی روانہ کرتے تھے۔ ہنٹر نے اپنی تصنیف ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں جس انداز میں ان کا ذکر کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی حکومت کے نزدیک یہ بہت خطرناک آدمی تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ 1870ء میں جب وہابی تحریک کے مرکزوں پر دھاوا بولا گیا تو ابراہیم منڈل ان لوگوں میں سے تھے، جن کو خاص طور پر مقدمۂ سازش کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’’ان کی سازش کا جال کسی بھی کمزور حکومت کو مرعوب کرنے لیے کافی تھا۔‘‘ ابراہیم منڈل کو اکتوبر 1870ء میں حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور اور ضبطیِ جاداد کی سزا ہوئی۔ مولانا محمد جعفر تھانیسری جو ان دنوں خود جزائر انڈمان میں عمر قید کاٹ رہے تھے، اپنی کتاب ’’کالا پانی‘‘ میں تحریر کرتے ہیں: ’’ایک بوڑھے اور ضعیف شخص ابراہیم منڈل کو اسلام پور میں پکڑا اور اپنے معمولی اور پُرانے گواہوں سے جوچاہاگواہی دلوا کر بے چارے کو کالا پانی روانہ کردیا۔‘‘ 5۔ عظیم آباد کا دوسرا مقدمۂ بغاوت عظیم آباد (پٹنہ) میں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت اور سازش کا پہلا مقدمہ 1865ء میں مولانا احمد اللہ کے خلاف دائر ہوا تھا۔ اس سے چھ سال بعد 1871ء میں دوسرا مقدمہ قائم ہوا۔ اس مقدمے میں سات ملزم تھے، جن کے نام یہ ہیں: 1 مولانا مبارک علی۔ 2 مولانا تبارک علی۔ 3 حاجی دین محمد۔4 حاجی امین الدین۔ 5 پیر محمد۔ 6حشمت داد خان اور7 امیر خاں۔ ابتدائی سماعت انگریز مجسٹریٹ باربور کی عدالت میں یکم مارچ 1871ء کو شروع ہوئی، 27۔مارچ کو فرد جرم عائد کرکے ملزموں کو سیشن سپرد کردیا گیا۔ یکم مئی 1871ء سے مقدمے کی سماعت مسٹر پرنسپ سیشن جج نے شروع کی۔ حکومت کی طرف سے
Flag Counter