Maktaba Wahhabi

65 - 173
باپ بیٹا اس وقت کویت میں مقیم تھے اور نجد پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ غزنوی برادران سے ان باپ بیٹے نے کچھ تعلیم بھی حاصل کی۔ نجد کی فتح کے بعد اپنے ہاں ان کو درس وتدریس کا سلسلہ شروع کرنے کی بھی دعوت دی، چنانچہ یہ بزرگ تقریباً پانچ سال وہاں رہے اور خاندان سعود کے بعض افراد اور اہل نجد ان سے مستفید ہوئے۔ اس اثنا میں امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی بعض قلمی کتابیں بھی ان کی وساطت سے برصغیر میں پہنچیں، جو خاندان غزنویہ کے علما اور یہاں کے بعض ناشروں نے شائع کیں۔ مولانا اسماعیل غزنوی اور مولانا داود غزنوی کی زندگی تک آل سعود سے ان کے تعلقات قائم رہے۔ برصغیر کے غزنوی خاندان کے اہل علم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ موجودہ سعودی حکمرانوں کے بزرگوں سے سب سے پہلے انہی کے تعلقات قائم ہوئے، جن کی بنیاد محض دینی جذبہ تھا۔ غلافِ کعبہ غزنوی خاندان کے سلسلے کی ایک اور لائق تذکرہ بات یہ ہے کہ جلالۃ الملک عبدالعزیز (ابن سعود) کے حجاز فتح کرنے کے بعد 1346ھ (1928ء) میں حضرت سید عبداللہ غزنوی کے دوپوتوں مولانا سید محمد داود غزنوی بن حضرت الامام سید عبدالجبار غزنوی اور مولانا سید اسماعیل غزنوی بن حضرت مولانا سیدعبدالواحد غزنوی نے امرتسر کے اعلیٰ درجے کے کشیدہ کاروں سے غلافِ کعبہ تیار کرایا اور وہ دونوں جو اس وقت نوجوان تھے، یہ غلاف مکہ مکرمہ لے کر گئے اور اسے جلالۃ الملک عبدالعزیز کو پیش کیا اور اسے کعبۃ اللہ پر چڑھایا گیا۔ یہ پہلا (اور آخری) غلاف کعبہ تھا جو بڑی خاموشی کے ساتھ برصغیر کے غزنوی خاندان کے دونوجوان علماے دین لے کر گئے اور اسے بیت اللہ شریف کی زینت بنایا گیا۔ مولانا اسماعیل غزنوی نے 19۔ذی الحجہ 1379ھ (13۔جون 1960ء) کو
Flag Counter