Maktaba Wahhabi

134 - 173
گرفتار شدگان پر الزام ثابت کرنے کے لیے ایک سو چھتیس گواہوں کی طویل فہرست عدالت کو دی گئی، لیکن ایک سو تیرہ آدمی پیش ہوئے۔ چھیالیس آدمیوں نے ملزموں کی طرف سے شہادت دی۔ درمیان میں کچھ دن سماعت ملتوی رہی۔ 1871ء کے آخر میں مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا۔ یہ انیسویں صدی عیسوی اور تیرھویں صدی ہجری کا آخری بڑا مقدمۂ سازش تھا جو ’’بڑا وہابی مقدمہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس مقدمے کے ملزم مولانا مبارک علی کو مولانا احمد اللہ کی گرفتاری کے بعد صادق پور کے مرکزِ مجاہدین کا نگران مقرر کیاگیا تھا۔ پہلے یہ 1868ء میں گرفتار ہوئے، اس کے بعد 1871ء کے مقدمے میں پکڑے گئے اور انھیں اس قدر مبتلاے اذیت کیا گیا کہ حالتِ قید ہی میں وفات پاگئے۔ مولانا تبارک علی پر جومولانا مبارک علی کے بیٹے تھے، یہ الزام تھا کہ 1862ء کی جنگ میں جو سرحد میں امبیلا کے مقام پر مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف لڑی تھی، یہ اس وقت کے امیر مجاہدین مولانا عبداللہ کے ساتھ شریکِ جہاد تھے اور مجاہدین کے ایک دستے کی کمان ان کے سپرد تھی۔ اس جرم میں انھیں حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور کی سزا ہوئی۔ مارچ 1872ء میں مولانا امیرالدین وغیرہ کے ساتھ کالا پانی پہنچے۔ دس برس قید کاٹنے کے بعد رہا ہوئے۔ حاجی دین محمد اور پیر محمد کو کئی مرتبہ گرفتارکیاگیا اور مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ اسی طرح حاجی امین الدین کو بھی بار بار پکڑا گیا اور متعدد مقدموں میں کئی دفعہ الجھایا گیا۔ جماعت مجاہدین کے بعض معاونین معرکۂ بالاکوٹ کے بعد حالات کی رفتار نے ایسا رخ اختیار کیا کہ جماعت مجاہدین کے اصل معاون اہل حدیث حضرات ہی ہوئے اور انہی کا اس جماعت سے
Flag Counter