Maktaba Wahhabi

140 - 173
عوام وخواص نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ بعض جماعتوں کا قیام ہی اہل حدیث علما وزعما کی کوششوں سے ہوا۔ مثلاً 1919ء کے آخر میں جمعیت علماے ہند کا قیام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سعی سے عمل میں آیا اور اس کی پہلی کانفرنس جو یکم جنوری 1920ء کو امرتسر میں بہ صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی منعقد ہوئی تھی، اس کے صدر استقبالیہ مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے۔ انھوں نے تحریری خطبۂ استقبالیہ پڑھا تھا۔ پھر مفتی کفایت اللہ دہلوی کو جمعیت علماے ہند کے صدر اور مولانا احمد سعید دہلوی کو ناظم اعلیٰ انہی مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تجویز وتحریک سے بنایا گیا تھا۔ اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں متحد تھیں۔ امرتسر ہی میں موتی لال نہرو کی صدارت میں کانگرس کا اجلاس ہوا تھا، اسی پنڈال میں مولانا شوکت علی کی صدارت میں آل انڈیا مجلس خلافت کا اور اسی میں حکیم محمد اجمل خاں کے زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس کے صدر استقبالیہ بھی مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے اور انھوں نے تحریری خطبہ استقبالیہ ارشاد فرمایا تھا۔ مجلس احرار کا قیام 1929ء میں مجلس احرار قائم ہوئی تو مولانا سید محمد داود غزنوی اس کے بانیوں میں سے تھے اور انھیں اس کے ناظم اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ مولانا عبدالقادر قصوری 1920ء سے لے کر 1930ء تک پنجاب کانگرس کے صدر رہے۔ مجلس خلافت کی صدارت بھی کئی سال ان کے سپرد رہی۔ مولانا ابوالقاسم بنارسی (متوفی 25۔نومبر 1949ء… 3۔سفر 1369ھ) نے آزادیِ وطن کے لیے حالات کے مطابق سیاسی جماعتوں میں شمولیت کی اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ وہ جماعتِ مجاہدین کے بھی بہت بڑے معاون تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی زندگی سے بھی لوگ آگاہ ہیں۔ریشمی رومال کی
Flag Counter