نباتات کو پیدا کیا ہے اور انہیں آہستہ آہستہ پروان چڑھایا ہے، انسان کا ہاتھ، پاں اور سر جدا جدا نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جمع کردیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان اعضا کو اکٹھے ہی پیدا کیا ہے۔ اگرچہ ان میں سے بعض کا دوسروں سے جدا ہونا ممکن ہے۔ تو یہ کہنا ممنوع ہے کہ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ تفریق، تجزئہ اور تبعیض کے لائق ہے۔ یہ دونوں مفاہیم متفق علیہ ہیں ۔ میں کسی مسلمان کا اس کے خلاف قول نہیں جانتا۔
اگر وہ کہے: ترکیب سے مراد یہ ہے کہ وہ مفرد جواہر یا مادہ اور صورت سے مرکب ہے۔ تقسیم اور تجزئہ سے وہ ان اجزا پر مشتمل ہے تو جمہور عقلا کہتے ہیں : یہ مخلوقات جن کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، مثلا: سورج، چاند، ستارے، ہوا، آگ اور مٹی، یہ نہ اس ترکیب سے جڑی ہیں ، نہ اس ترکیب سے۔ تو رب العالمین کے بارے میں کیسے مان لیا جائے؟ کیونکہ صریح عقل سے یہ بات معلوم ہے کہ وہ مخلوق جس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، جو دوسروں سے بلند ہے جیسے آسمان زمین سے بلند ہے، جب جمہور عقلا کہتے ہیں کہ وہ جدا ہونے والے اجزا سے مرکب نہیں ہے، جبکہ قائلین کے ہاں وہ مفرد جواہر ہیں ، اور نہ مادہ اور صورت سے ، تو ان کا رب العالمین کے اِس یا اس سے مرکب ہونے سے روکنا زیادہ لائق ہے۔
البتہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ چیزیں جن کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، اس اور اس سے مرکب ہیں ۔ تو انہی میں سے معتزلہ اور اشاعرہ جیسے بہت سے لوگ رب تعالی سے اس ترکیب کی نفی کرتے ہیں ۔ لیکن بہت سے متکلمین کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ جسم ہے۔ تو جب وہ ان لوگوں میں سے ہو جو کہتے ہیں کہ جسم مفرد اجزا یا مادہ اور صورت سے مرکب ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اور اس اعتبار سے مرکب ہے۔
جمہور مسلمانوں کے نزدیک یہ قول باطل ہے۔ لیکن جمہور عقلا جو مخلوقات میں اس ترکیب کی نفی کرتے ہیں ، خالق میں تو زیادہ سختی سے اس ترکیب کی نفی کرتے ہیں ۔
جو یہ کہتا ہے کہ جس مخلوق کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے، وہ اس ترکیب سے مرکب ہے تو یہ لوگ رب تعالی سے اس چیز کی نفی کرنے کے لیے عقلی دلیل کے محتاج ہیں جو اس قسم کے امتناع کو بیان کرے۔ کیونکہ ان کے مد مقابل وہ لوگ جو اس معنی کے اثبات کے قائل ہیں ، اور وہ اللہ تعالیٰ کو مرکب مانتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : ہمارے مخالفین کے پاس نفی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ جن مقدمات میں وہ ہمارے موافق ہیں جن سے حاضر میں اس ترکیب کا اثبات ہوتا ہے، وہی مقدمات اس ترکیب کے غائب میں ہونے کے دلیل ہیں ۔اور بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں غائب پر حاضر سے استدلال کیا گیا ہے۔ دونوں گروہوں میں اس مسئلہ میں بہت سے عقلی، لفظی اور لغوی جھگڑے ہیں ۔ جو کسی اور جگہ تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ۔جمہور عقلا، سلف اور ائمہ کے نزدیک دونوں گروہ غلطی پر ہیں ۔ رب تعالی کی اس سے تنزیہ عقل وشریعت سے واضح ہے۔ جیسا کہ فاسد شبہات کو واضح کیا گیا ہے۔
|