Maktaba Wahhabi

749 - 779
نقص والی صفت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو جہل، عجز اور نیند وغیرہ سے منزہ قرار دینا چاہتا ہے تو یہ صفات اجسام کی ہی ہوتی ہیں ۔ اسے کہا جائے گا: تم جن اسما، احکام یا صفات کا اثبات کرتے ہو، وہ تو صرف اجسام کی ہوتی ہیں ۔ اس وجہ سے جو لوگ اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ کو عیوب اور نقائص سے متصف قرار دینے والوں کی تردید کرتے ہیں ، ان کی اپنی کلام متناقض ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور سلف میں سے کسی ایک نے بھی یہود وغیرہ کی تردید کے لیے اس طریقہ پر اعتماد نہیں کیا جو اللہ تعالیٰ کو نقائص سے متصف قرار دیتے تھے، مثلا: بخل، فقر، تھکاوٹ، بیوی، اولاد اور شریک وغیرہ۔ پھر بہت سے وہ لوگ جو اس طریقہ پر عمل پیرا ہیں ، حتی کہ صفاتیہ میں سے بھی، وہ کہتے ہیں : رب تعالی کا نقص سے مبرا ہونا اور کمال سے متصف ہونا ہم عقل سے نہیں ، نقل سے جانا جاتا ہے۔ اسی پر قابل اعتبار اجماع ہے۔ ان لوگوں کے پاس کوئی ایسا عقلی طریقہ کار نہیں ہے جس کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کو نقائص سے منزہ قرار دے سکیں ۔ جس اجماع پر انہوں نے اعتماد کیا ہے، وہ اجمال میں تو فائدہ دیتا ہے، تفصیل میں فائدہ نہیں دیتا۔[1] جبکہ مسلمانوں کے درمیان جھگڑا تو تفصیل میں ہی ہے۔متنازعہ امور میں اجماع سے احتجاج ممنوع ہے۔ پھر جس اجماع کی وہ بات کرتے ہیں ، وہ بعض نصوص کے سہارے کھڑا ہے۔ جبکہ نصوص کی صفاتِ کمال پر دلالت اس سے کہیں زیادہ ظاہر وباہر ہے جتنی اجماع کے حجت ہونے پر ہے۔ جب صفات کی نفی کرنے والوں کے اصولوں کی کمزوری ظاہر ہوگئی جن کے ذریعہ وہ رب تعالی کی تنزیہ کرتے تھے تو یہ روافض مختلف مذاہب کے دروازوں کے چکر کاٹنے لگے اور آخر کار انہوں نے گھٹیا ترین مفاہیم کو اختیار کرلیا۔ عقلیات میں ان کا اعتماد باطل عقلیات پر ہے۔ اور نقلیات میں بھی باطل نقلیات پر ان کا اعتماد ہے۔ اسی وجہ سے لوگوں میں سے حجت کے اعتبار سے یہ لوگ کمزور ترین ہیں اور مقاصد کے اعتبار سے زیادہ جکڑ بندیوں کا شکار ہیں ۔ ان کے ائمہ میں سے اکابر پر زندیقیت اور فساد کا الزام تھا جیساکہ ان کے بہت سے اکابرین سے الزامات موجود ہیں ۔ یہاں پر ہمارا مقصود یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لوگوں نے مجمل الفاظ کے ذریعہ گفتگو کی ہے، مثلا: ترکیب، انقسام، تجزئہ اور تبعیض وغیرہ۔ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ منقسم ہونے والا، ٹکڑے ہونے والا، تقسیم ہونے والا اور مرکب وغیرہ نہیں ہے ۔ تو اگر اس کی مراد وہ معنی ہوتا ہے جو لغت میں ان الفاظ کا معروف معنی ہے تو اس بارے میں مسلمانوں کے ہاں کوئی جھگڑا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے منزہ ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ متفرق اجزا سے مرکب ہے۔ چاہے یہ کہا جائے کہ وہ خود ہی جڑ گیا تھا یا کسی دوسرے نے اسے جوڑا تھا۔ نہ یہ کہنا جائز ہے کہ وہ ایسا مرکب ہے جو تفریق، تجزئہ اور تبعیض کے لائق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ متفرق تھا، پھر جمع ہوگیا۔ جیسا کہ اجسام کے بارے میں ایسا کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، اگرچہ اس نے حیوانات اور
Flag Counter