Maktaba Wahhabi

389 - 779
[شبہ] : شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ اہل سنت کے یہاں بنوامیہ میں پھر بنو عباس میں خلافت جاری رہی۔‘‘ [جواب ]:اہل سنت یہ نہیں کہتے کہ صرف ان حکمرانوں کواختیار حاصل تھا کہ باقی لوگوں کوچھوڑ کر خود ہی کسی دوسرے کو خلیفہ منتخب کریں ۔نیز اہل سنت کا ایک فرد بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ خلفاء تمام اوامر و احکام میں واجب الاطاعت تھے اور کسی بات میں ان کے حکم سے سرتابی کرنا روانہ تھا۔ بخلاف ازیں وہ واقعات کی خبر دیتے ہیں ‘اورجو چیز واجب ہے اس کا حکم دیتے ہیں ۔وہ اس چیز کی گواہی دیتے ہیں جو وقوع پذیر ہوئی تھی۔وہ صرف اس چیز کا حکم دیتے ہیں جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاتھا۔اس لیے وہ کہتے ہیں : بنوامیہ مسند خلافت پر متمکن ہوگئے تھے وہ قوت و اقتدار سے بھی بہرہ ور تھے جس سے وہ مقاصد ولایت کو پورا کرسکتے تھے جیسے اللہ تعالیٰ کی شریعت کو نافذکرنا ‘حدود شریعت قائم کرنا؛لوگوں میں اموال تقسیم کرنا ؛اور شہروں میں والی مقرر کرنا وغیرہ۔[اوربنو امیہ امور سلطنت کے انتظام و انصرام سے بھی نابلد نہ تھے۔وہ مقاصد امامت کی تکمیل میں بھی کامیاب تھے]۔ مثلاًوہ دشمن کے ساتھ جہاد میں حصہ لیتے تھے، حج کرنے جاتے،جمعہ جماعت اور عیدین کی پابندی کرتے اور راستوں کی حفاظت کا سامان بہم پہنچاتے تھے۔ تاہم [یہ اہلسنت والجماعت کی امتیازی شان اور عدل و انصاف ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ]:ان خلفاء یا ان کے نوابین میں سے کسی کی بھی اطاعت اﷲ کی نافرمانی کر کے نہیں کی جاسکتی تھی۔بلکہ جو کام اللہ کی اطاعت کا کریں گے ‘اس میں ان کے ساتھ شریک بنیں گے؛ ان کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا جائے گا ‘ ان کے ساتھ جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھی جائے گی؛ حج کیا جائے گا؛ حدود شریعت کے قائم کرنے میں ان کی مدد کی جائے گی۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے میں ان کا ساتھ دیا جائے گا۔پس ان کی اطاعت صرف نیکی و تقویٰ کی حد تک تھی نہ کہ گناہ اور سرکشی میں ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاد مغرب میں بنو امیہ اور بنو علی رضی اللہ عنہ میں سے کئی لوگ عامل بنے تھے ۔ ائمہ اثنا عشرہ مقاصد امامت کی تکمیل سے قاصر تھے: یہ حقیقت ’’ عیاں را چہ بیاں ‘‘ کی مصداق ہے کہ امراء و حکام کے بغیر انسانی نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی مسلم ہے کہ ان ظالم حکمرانوں سے بڑھ کر بھی اگر کوئی ظالم حاکم ہو‘ تواس کا ہوناحاکم نہ ہونے سے بہتر ہے۔جیساکہ کہا جاتا ہے: [1]
Flag Counter