ہشتم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’اس کا کلام قائم بالذات معنی کو مشتمل ہوتا ہے۔ اسے اس نے اپنے غیر میں پیدا کیا ہے۔ پھر ان میں سے کچھ نے ابن کلاب کا مفہوم بیان کیا ہے یہ قول ابومنصور ماتریدی [1] کا ہے۔ کچھ نے فلاسفہ کا قول اختیار کیا ہے۔ یہ قول باطنی ملحدین کی ایک جماعت ؛اوران کے متصوفہ اور شیعہ کا ہے۔
نہم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’کلام اللہ تعالیٰ معنی قدیم قائم بالذات اور اپنی غیرمیں جو اس نے آوازیں پیدا کی ہیں ؛ان کے مابین مشترک ہے۔ یہ قول ابوالمعالی اور متاخرین اشاعرہ اور ان کے پیروکار حضرات کا ہے۔
[عقیدہء اھل سنت کی تفصیل]
من جملہ اہل سنت والجماعت اھل الحدیث اور ان کی طرف منسوب کیے جانے والے (اھل التفسیر، اھل حدیث، اھل فقہ اھل تصوف، مثلاً ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین رحمہم اللہ ) اور وہ جماعتیں جن کی نسبت اہل سنت و الجماعت کی طرف ہے ؛ جیسے : کلابیہ، کرامیہ، اشعریہ اور سالمیہ کی طرف ہے؛ سب کہتے ہیں : ’’ کلام اللہ مخلوق نہیں ۔ اورقرآن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ یہ عقیدہ سلف اور ائمہ اھل بیت وغیرہ سے مشہور اور مستفیض ہے۔[2]
یہ صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے متواتر منقول ہے اہل الحدیث اور اہل السنۃ کی اس مسئلہ پر بیسیوں تصانیف ہیں جن میں وہ ثابت شدہ سندوں کے ساتھ سلف کے اقوال نقل کرتے ہیں ۔ ان کتب میں سے ’الرد علی الجھمیہ از محمد بن عبداللہ الجعفی[3] اور عثمان بن سعید دارمی رحمہ اللہ اس طرح نقض عثمان بن سعید رحمہ اللہ علی
|