Maktaba Wahhabi

594 - 779
استواء و علو میں قائلین رؤیت کا اختلاف ٭ جب معاملہ ایسے ہی ہے تو اس کا کسی جھت میں نہ ہونا عدم رؤیت کی دلیل ہے۔ یہ قائلین رؤیت کے مابین اختلاف کامقام ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث نبوی ہے: ((إنکم ترون ربکم کما ترون الشمس والقمر لا تضامون فی رؤیتہ))۔ ’’تم اپنے رب کو یوں دیکھو گے جیسے سورج اور چاند کو تمہیں اس کے دیکھنے میں مشقت نہیں ہو گی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ حدیث ہے؛ اس کے کئی طرق ہیں یہ مستفیض بلکہ محدثین کے ہاں متواتر ہے؛[1] اور اس کی صحت متفقہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسے کثرت بھی حاصل ہے محدثین نے اس کے طرق جمع کیے ہیں مثلاً ابو الحسن دارقطنی، ابونعیم اصفہانی، ابوبکر آجری وغیرہ اصحاب صحیح کا اسے متعدد وجوہ سے نقل کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ بات قطعی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے۔ایک جماعت کے مطابق وہ دیکھا جائے گا مگر اس کی جھت نہیں نہ دیکھنے والے کے آگے نہ پیچھے ؛نہ دائیں نہ بائیں ؛ نہ اوپر نہ نیچے، متأخر اشاعرہ کے ہاں یہ مشہور قول ہے اس کی بنیاد باری تعالیٰ کا عرش پر ہونے میں اختلاف کا وقوع ہے۔ اشعری اور اس کے قدماء اصحاب رحمہم اللہ کے بقول وہ بذات خود عرش پر موجود ہے؛ لیکن اس کے باوجود وہ جسم نہیں ۔ عبداللہ بن سعید بن کلاب، حارث محانبی، ابوالعباس قلانسی کا بھی یہی قول ہے بلکہ انہوں نے اشعری سے بھی زیادہ کامل طریقے سے اس کو ثابت کیا ہے۔ان کے ہاں علو، صفات عقلیہ میں سے ہے اور اشاعرہ کے ہاں صفات سمعیہ میں سے ہے۔ اور اشعری نے اپنے فہم کے مطابق اہل سنت والحدیث سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ ابو محمد بن کلاب یہ اشعری کا استاد اور مقتداء ہے اس نے اور اس کے دیگر اصحاب جیسے حارث محاسبی، ابوالعباس قلانسی، ابو سلیمان و مثقی اورابوحاتم بستی [2]اور بہت سے لوگ کہتے ہیں علام علو کے تباین سے اسے متصف کرنا عقلی
Flag Counter