ابن حامد پھر وہ احادیث ذکر کرتے ہیں جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے امام نماز ہونے کا ذکر کیا گیا۔ ان کے علاوہ کچھ اور احادیث بھی قلمبند کی ہیں جو محدثین کے نزدیک صحت کے درجہ سے فروتر ہونے کی وجہ سے یہاں پر ذکر نہیں کی جارہی۔
خلافت صدیقی سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ کا زاویہ نگاہ:
امام ابن حزم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ الملل و النحل‘‘ میں فرماتے ہیں : [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامت ابی بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں علماء کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے:
(۱) ایک گروہ کا خیال ہے کہ آپ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا۔
(۲) دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ جب آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام نماز بنایا تھا تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ آپ امامت و خلافت کے اوّلین مستحق تھے۔
(۳) تیسرے گروہ کے نزدیک افضلیت کی بناء پر آپ کو امام نماز بنایا گیا تھا۔ اس سے ان کی خلافت کی جانب اشارہ کرنا مقصود نہیں ۔
(۴) چوتھے گروہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً اپنے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کولوگوں پر خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ درج ذیل براہین و دلائل کی روشنی میں ہم نے آخری نظریہ اختیار کیا ہے۔
پہلی دلیل:.... خلافت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی پہلی دلیل [لوگوں کے طبقات کے لحاظ سے ]یہ ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ (الحشر:۸)
’’(فئے کا مال)ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکالے گئے وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں ۔‘‘
اس آیت میں جن صحابہ کی صدق بیانی اور راست گوئی کی شہادت دی گئی ہے وہ آپ کو ’’خلیفۃ الرسول‘‘ کہنے میں یک زبان تھے۔
|