اگر یہ کوئی کہے کہ فعل یا فعل کو فرض کرنا اس کے بارے میں یہ بات ممکن نہیں کہ اس کے لیے کوئی ابتدا ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور بات جیسے کہ حرکت اور زمان تو جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات باطل ہے تو یہ تو خود بہ خود ہی دفعہ ہو گیا اور اگر یہ صحیح ہے تو جس بات کو ثابت کیا جاتا ہے وہ تو وہ کمال ہے جو ممکن الوجود ہے اور ایسے حال میں جبکہ نوع کے لیے دوام ثابت ہو تو ممکن اور اکمل ذات ہی تمام افراد میں سے ہر فرد پر متقدم ہوگی اس طور پر کہ عالم کے اجزاء میں سے کوئی شے بھی اس کے ساتھ کسی طور پرمقارن اور متصل نہ ہو اور رہا فعل کا دوام تو وہ بھی صفتِ دوام میں سے ہے اس لیے کہ فعل جب صفتِ کمال ہو تو اس کا دوام بھی کمال کا دوام ہے اور اگر وہ صفتِ کمال نہیں تو پھر اس کادوام بھی واجب نہیں پس دونوں تقدیروں پر عالم میں سے کوئی شے بھی قدیم نہیں ٹھہرے گی اور اس بات پر اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ میں تفصیلی کلام عرض کیا جا چکا ہے۔
قدوم عالم اور حکمت و تعلیل کے مسئلہ میں کلام کے درمیان ارتباط کی وجہ
یہاں تو مقصود اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کا ماخذ تعلیل کے مسئلہ میں کیا ہے جو تعلیل کو جائز سمجھتے ہیں ۔
تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ امر کہ جس پر شریعت اور عقل دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ماسوا سارے کے سارے اشیاء محدث اور موجود ہیں بعد اس کے کہ معدوم تھے اور اللہ کا ازل سے اس طرح ہونا کہ پہلے فعل سے معطل تھے (یعنی کسی چیز کا احداث نہیں کررہے تھے )۔
پھر آپ کی ذا ت سے افعال صادر ہوئے پھر شرع اور عقل میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کو ثابت کرے بلکہ یہ دونوں یعنی عقل اور شرح اس کے نقیض پر دلالت کرتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی وقت فعل سے معطل نہیں ہوئے اور جب کہ نوعِ حوادث اور ان کے اشخاص اور اعیان کے درمیان فرق معروف ہے اور مسلمانوں اور دیگر اہل ملل اور آئمہ فلاسفہ جو کہ عالم میں سے عالمِ بالا اور عالم اسفل میں سے ہر ہر شے کے حدوث کے قائل ہیں جبکہ ان کے اقوال کے درمیان فرق معلوم ہوا اور ایسے ہی ارسطو اور ان کے وہ اتباع جو قدمِ افلاک اور عناصر اربعہ کے قدم کے قائل ہیں ،ان کے اقوال کے درمیان تو اس باب میں غلطی اور صواب اور ٹھیک اور غلط بالکل جدا جدا واضح ہو گئے اور یہ انتہائی اعلیٰ درجہ کے علوم میں سے ہیں اور یہ تعلیل کے قائلین کے خلاف ان لوگوں کے لیے مؤید جواب ہے جو تسلسل فی الآثار کے بطلان سے ان کے خلاف استدلال کرتے ہیں ۔
حجت ِ استکمال
رہا حجت استکمال تو انہوں نے یہ کہا کہ یہ امر ممتنع ہے کہ رب تعالیٰ غیر کی طرف محتاج ہو یا یہ کہ ازل میں اس کی ذات میں کوئی ایسا صفتِ کمال نہ پایا جاتا جس کا ازل میں وجود ممکن ہو جیسے کہ حیات اور علم اور جبکہ اللہ کی
|