ماہرین نے عین الحادث اور نوع الحادث کے مابین فرق کا ادراک کر لیا ہے۔ بلاشبہ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ جس چیز سے قبل کوئی معین حادث نہ ہو وہ خود بھی حادث ہوگی۔ اور جس چیز سے قبل اس نوع کی کوئی حادث چیز نہ ہو؛ تو اس کا حادث ہونا معلوم نہیں ہو سکتا۔ اور اگر دوام حوادث کا امتناع معلوم نہ ہو؛ اور یہ کہ اس کی بھی کوئی ابتداء ہے؛ اور یہ کہ حوادث کا تسلسل ممتنع ہے اور حوادث کے وجود کی کوئی اول اور ابتداء نہیں ہوتی۔ پس یہ دلیل امتناع حوادث پر موقوف ہوگی جن کی کوئی ابتداء ہی نہیں ہے۔ یہ موضوع اس دلیل میں سب بڑا اور مہم ہے۔ اور اس میں بہت زیادہ اضطراب بھی پایا جاتا ہے جس میں حق و صواب اور خطاء آپس میں مل جل گئے ہیں ۔
کچھ دوسرے لوگ اس سے بھی عام مسلک پر چلے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ : جسم اعراض سے خالی نہیں ہوتا ۔ اور اعراض حادث ہوتے ہیں ؛ وہ دو زمانوں تک باقی نہیں رہ سکتے۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں : جسم میں اعراض کی کوئی نا کوئی قسم پائی جاتی ہے؛ اس لیے کہ جسم اعراض کے قابل ہوتا ہے۔ اور کسی چیز کی قابلیت رکھنے والا اس چیز سے او راس کی ضد سے خالی نہیں ہوتا۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں : جسم اجتماع و افتراق اور حرکت و سکون سے خالی نہیں ہوتا۔ پس یہی عناصر اربعہ اکوان(عناصر ترکیب) ہیں ۔ پس جسم اکوان سے خالی نہیں ہوتا۔ اس موضوع پراور اس کے طرق اور لوازم پرکلام بہت زیادہ ہے۔جسے دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے؛ یہاں پر صرف تنبیہ کرنا مقصود تھا۔
یہ کلام اگرچہ اس کی اصل معتزلہ کی طرف سے شروع ہوئی تھی؛ مگر بعد میں اس میں صفات الٰہیہ کو ثابت ماننے والے بھی داخل ہوگئے۔ حتی کہ اس میں وہ لوگ بھی آگئے جو بطور خاص اہل سنت کی طرف منتسب ہیں ؛ یا پھر اہل حدیث اور اہل سنت کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں ۔اور یہ باتیں امام مالک ؛ امام شافعی اورامام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے بہت سارے اصحاب کے کلام میں موجود ہیں ۔
اثبات صفات کے متعلق ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا موقف:
یہ وہ کلام ہے جو اشعری رحمہ اللہ پر معتزلہ کے بقایا جات میں سے باقی رہ گیا تھا۔ اس لیے کہ جب انہوں نے معتزلہ کے مذہب اوراہل سنت و الجماعت کے خلاف ان کے مشہور اصولوں ؛ جیسے:اثبات صفات و رؤیت ؛اور قرآن کا غیر مخلوق ہونا؛اثبات قدر اور دیگر عقائد اہل سنت و الجماعت ومحدثین کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے معتزلہ کی مخالف شروع کردی۔یہ تفصیل انہوں نے اپنی کتاب ’’المقالات ‘‘ میں بیان کی ہے؛ اوریہ کہ اب وہ وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ اہل سنت اور محدثین کا عقیدہ ہے۔ [1]
|