مرفوع حدیث بھی منقول ہے[1]۔جس کی روشنی میں آیت کی تخصیص یا ظاہری معنی سے خروج کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی یہ کہنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہم اسے دنیا میں نہیں دیکھ سکتے یا یہ کہیں کہ اسے آنکھیں دیکھیں گی نہیں دکھائی جائیں گی یا سارے کا ادراک نہیں کرسکیں گے ؛ بعض کا ہو گا؛ وغیرہ ان سب اقوال میں تکلف ہے۔
یہاں اتنا کہنا کافی سمجھتے ہیں :آیت میں اس کا احتمال ہے اس میں نفی رؤیت کی دلیل نہیں ۔ اس سے رؤیت پر استدلال کرنا باطل استدلال ہے۔ جب ہم یہ ثابت کرنا چاہیں کہ دلالت آیت کی نفی رؤیت کی نفی کے ساتھ احاطہ و ادراک کی نفی کرتی ہے؛ تو ہم نے خود ہی یہ دلیل پیش کی کہ لغت میں رؤیت ادراک کا مترادف نہیں ، بلکہ ادراک رؤیت سے خاص ہے۔ ہم نے لغت، مفسرین اور دیگر عقلی و سمعی دلائل سے اپنی بات کو ثابت کر دیا۔
[اللہ تعالیٰ سے جہت کی نفی:]
[شبہ ]:.... رافضی مصنف کا قول ہے: ’’اس وجہ سے وہ کسی جھت میں نہیں ۔‘‘
[جواب ]: ....لوگوں کے ہاں لفظ جھت کے تین اطلاقات ہیں ۔ ایک جماعت نے اس کی نفی کی ہے۔ ایک نے ثابت کیا ہے اور ایک نے تفصیل بیان کی ہے۔ یہ اختلاف صفات الٰہی کے قائلین ائمہ اربعہ کی اصحاب دیگر حضرات میں پایا جاتا ہے۔ اھل الحدیث اور اہل سنت کا اس کی نفی و اثبات میں فقط لفظی اختلاف ہے نہ کہ معنوی۔ اسی وجہ سے امام ابن حنبل رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ایک گروہ مثلاً تمیمیین اور قاضی ابویعلی[2] رحمہ اللہ نے ایک قول نفی کا اختیار کیا ہے۔ اوردوسری جماعت میں سے اکثر نے اس کا اثبات کیا ہے۔ یہ قاضی کے دوا قوال میں سے دوسرا قول ہے۔
متبعین سلف نہ اثبات کا اطلاق کرتے ہیں نہ نفی کا؛ مگر جس کی نفی یا اثبات واضح ہو جائے اس کا اثبات یا نفی کرتے ہیں ۔ کیونکہ متأخرین کے ہاں جھت کے لفظ میں دیگر اصطلاحات کی طرح ابہام و اجمال ہے۔ ان میں
|